True Fatawa

بحالتِ غصّہ دو طلاقِ رجعیہ کا حکم

سوال نمبر: JIA-109

الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کی بیوی کہتی ہے کہ میرے شوہر نے مجھے غصہ میں دو بار طلاق دی ہے زید سے پوچھا گیا تو وہ کہتا ہے کہ میں غصہ میں تھا مجھے معلوم نہیں اگر میری بیوی کہتی ہے کہ میں نے طلاقیں دی ہیں تو میں نے دی ہوں گی میں اس کے دعوی کا انکار نہیں کرتا اقرار کرتا ہوں گواہ کوئی نہیں ہے اور زید کی بیوی حاملہ بھی ہے طلاق کے الفاظ جو زید نے کہے وہ یہ تھے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔کیا حالتِ غصہ میں طلاق ہو جاتی ہے۔ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں اور رجوع کی کیا صورت بنے گی۔ اور رجوع کیسے ہو گا۔ بینوا وتوجروا عند اللہ

سائل:مران خان ولد عبدالرزاق خان، ایف ایس ۷؍۱۲، ملیر توسیعی کالونی ، کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صورت مسئولہ میں دو طلاقیں رجعیہ واقع ہوئیں۔

چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:

  اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔1

  یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی (اچھے سلوک )کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔ (کنزالایمان)

اس لئے زید کو دورانِ عدّت رجوع کا حق حاصل ہے اور حاملہ کی عدّت وضعِ حمل ہے۔

چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۱۶۱ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:  

  وعدّۃُ الحاملِ أن تضعَ حملَھا۔2

یعنی، حاملہ کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کرلے۔

 رجوع کا طریقہ یہ ہےکہ زید بیوی کی موجودگی میں اُسے کہہ دے کہ میں نے تم سے رجوع کیا یا عورت کی موجودگی یا عدم موجودگی میں یوں کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا۔

چنانچہ امام ابو بکر بن علی حدادی حنفی متوفی ۸۰۰ھ لکھتے ہیں:  

  (والرّجعۃُ أن یقولَ رجعتُکِ أو راجَعتُ امْرأتی) فقولہُ: ’’راجعتکِ‘‘ : ھذا فی الحضرۃِ۔ وقولہُ: ’’راجعتُ امرأتی‘‘ فی الحَضرۃ والغَیبۃ۔3

یعنی، رجوع یہ ہے کہ مرد اپنی عورت کی موجودگی میں اُسے کہہ دے کہ میں نے تجھ سے رجوع کیا یا میں نے اپنی عورت سے رجوع کیا، خواہ عورت موجود ہو یا نہ ہو۔

اور بہتر یہ ہے کہ اپنے اس قول پر دو گواہ بنالے تاکہ رجوع پر گواہ رہیں۔

چنانچہ امام ابوالحسین احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی۴۲۸ھ لکھتےہیں: 

  ویُستحبّ لہ أن یشھدَ علی الرّجعۃِ۔ 4

یعنی، مستحب ہے اس شخص کے لئے کہ رجوع پر گواہ بنائے۔

رجوع کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مرد بیوی سے ہمبستری کرلے یا شہوت کے ساتھ بوسہ لے یا بشہوت بدن کو چھولے وغیرہا۔

چنانچہ امام قدروی حنفی لکھتے ہیں: 

  أو يَطَأَها أو يُقبِّلها أو يَلمِسَها بشهوةٍ أو يَنظُر إلى فَرجها بشَهوة۔5

یعنی، رجوع یہ ہے کہ مرد عورت سے ہمستری کرلے یا شہوت سے بوسہ لے یا شہوت کے ساتھ بدن کو چھولے یا عورت کی شرمگاہ کی طرف بشہوت دیکھے۔

اور رجوع کے بعد زید کے پاس صرف ایک طلاق کی گنجائش ہے، اگر خدانخواستہ وہ رجوع کے بعد یا دورانِ عدّت قبلِ رجوع اپنی بیوی کو ایک اور طلاق دیتا ہے تو اب اس کی بیوی اُس پر حرام ہوجائے گی کہ بغیر حلالہ شرعیہ کے حلال نہ ہوگی۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے: 

   فَاِنْ طَلَّقَہَا فَـلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔6

   پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔ (کنز الایمان)

اورحالتِ غصّہ میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں: غصّہ مانع وُقوعِ طلاق نہیں بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اُسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راساً ابطال ہے۔7

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: ۱۸/جمادی الأولیٰ ، ۱۴۲۲ھ ۔ ۹/أغسطس، ۲۰۰۱م

المفتى محمد عطاءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 البقرۃ:۲۲۹/۲
  • 2 الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر فی العدۃ، ۱/۵۳۸، مطبوعۃ:دارالمعرفۃ، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ ۱۳۹۳ھ-۱۹۷۳م
  • 3 الجوھرۃ النیرۃ شرح مختصر القدوری، کتاب الرجعۃ، ۲/۱۹۷،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت،الطبعۃ الأولی ۱۴۲۷ھ-۲۰۰۶م
  • 4 مختصر القدوری، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ص ۱۵۹، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۱۸ھ-۱۹۹۷م
  • 5 مختصر القدوری، کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ص ۱۵۹، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۱۸ھ-۱۹۹۷م
  • 6 البقرۃ: ۲۳۰/۲
  • 7 فتاویٰ رضویہ، کتاب الطلاق، ۱۲/ ۳۸۳، مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن لاہور، طباعت: ۱۴۱۸ھ ۔ ۱۹۹۷م