True Fatawa

کنایہ کے بعد الفاظ صریحہ سے طلاق کا حکم

سوال نمبر:575-F

الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید اور اس کی بیوی میں رات کو مسئلہ ہوا، صبح اُٹھ کر زید نے اپنی بیوی سے کہا ’’آج سے تیرا میرا رابطہ ختم‘‘ ، ’’آج سے میں تجھے چھوڑتا ہوں‘‘، طلاق، طلاق، طلاق، اب زید کی بیوی پر کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

سائل:معرفت خالد، حسین آباد، کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں کیونکہ زید کا اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ ’’آج سے تیرا میرا رابطہ ختم‘‘ یہ الفاظ کنایہ کے ہیں، ان سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی۔

 چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: یہ لفظ  کہ ’’تیرا میرا کچھ واسطہ  نہیں‘‘الفاظ کنایہ سے ہے بمعنی قطع تعلّق کثرت سے مستعمل ہے۔1


اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین حنفی قادری متوفی ۱۴۱۳ھ لکھتے ہیں: ’’میں شرع کے اعتبارسے اپنی بیوی کو نکاح سے آزاد کر رہا ہوں ، اب میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘ ۔ یہ الفاظ کنایہ کے ہیں۔ ان سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی۔  2


پھر زید نے کہا کہ ’’آج سے میں تجھے چھوڑتا ہوں‘‘ اور یہ صریح طلاق ہے جس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ۔


چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی لکھتے ہیں: یہ لفظ کہ میں نے تجھ کو چھوڑا الفاظ طلاق سے ہے اور عُرف میں طلاق کے لئے مستعمل ہوتا ہے، لہٰذا بغیر نیت بھی اس سے طلاق واقع ہوتی ہے۔3


کیونکہ غیر عربی الفاظ میں قاعدہ یہ ہے کہ جو لفظ جس زبان میں طلاق کے لئے استعمال ہوتا ہو اس زبان میں لفظ صریح قرار پاتا ہے ۔


چنانچہ علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ اور اُن سے نقل کرتے ہوئے علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۱۶۱ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے فارسی کے بارے میں لکھا ہے:

  والأصلُ الّذي عليه الفَتوى في زمانِنا هذَا في الطّلاق بالفارِسِيّة؛ أنّه إن كان فيها لفظٌ لا يُستعمَل إلّا في الطّلاق؛ فذلك اللّفظُ صريحٌ يقعُ به الطّلاقُ مِن غَير نيّةٍ، إذا أُضِیفَ إلی المرأةِ۔45


یعنی، اور فارسی میں طلاق کا قاعدہ کہ جس پر ہمارے اس زمانے میں فتوی ہے وہ یہ ہے کہ جب فارسی میں وہ لفظ نہیں استعمال کیا جاتا ، مگر طلاق میں تو وہ لفظ صریح ہے جس سے بلا نیت طلاق واقع ہو گی جب کہ وہ طلاق عورت کی طرف مضاف ہو ۔

اور لفظ ’’چھوڑا‘‘ کے بارے میں امام برہان الدین ابو المعالی محمود بن احمد ابن مازہ بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ اور اُن سے علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

  : وكان الشّيخُ الإمامُ ظهيرُ الدّين المَرغِينانيُّ رحمهُ الله تعالى يُفتِي في قوله بَهَشْتُمْ بالوُقوع بلا نيّةٍ ويكونُ الواقعُ رجعيًّا۔6 7

یعنی، شیخ الاسلام امام ظہیر الدین مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ شوہر کے قول’’میں نے تجھے چھوڑا‘‘ میں بلا نیّت وُقوعِ طلاق کا فتویٰ دیتے تھے اور اس سے طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔

پھر اس نے تین بار طلاق طلاق طلاق کے الفاظ کہے، یہ الفاظ اضافت لفظی سے اگرچہ خالی ہیں لیکن ان میں اضافت معنوی موجود ہے اور یہ طلاق کے صریح الفاظ ہیں جن سے رجعی طلاق واقع ہوتی ہے۔

اب صورت یہ بنی پہلے ایک طلاق بائن دی پھر چار صریح طلاقیں دیں اس طرح ایک بائن اور دو صریح مل کر تین طلاق مغلّظہ واقع ہو گئیں کیونکہ صریح طلاق بائن طلاق کو لاحق ہو جاتی ہے۔

 چنانچہ امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی ۷۱۰ھ لکھتے ہیں: 

  الصّریحُ یَلحقُ الصّریحَ و البائِنَ، و البائنُ یلحقُ الصّریحَ، لا البائنَ، إلا إذا کان مُعلَّقاً۔8

یعنی، صریح صریح اور بائن کو لاحق ہوتی ہے اور بائن صریح کو لاحق ہوتی ہے نہ کہ بائن کو مگر جب کہ وہ مُعلّق ہو۔

اس طرح کُل پانچ طلاقیں دی گئیں جن میں پہلی تین واقع ہو گئیں اور آخر کی دو لغو قرار پائیں اور زید کی بیوی زید پر حُرمت مُغلّظہ کے ساتھ حرام ہو گئی کہ اب بے حلالہ شرعیہ دوبارہ حلال نہ ہو گی۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے: 

  فَاِنْ طَلَّقَہَا فَـلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔9

   پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔ (کنز الایمان)



  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء:یوم الجمعۃ، ۲۲/محرم الحرام ، ۱۴۳۱ھ ۔۸/ینایر، ۲۰۱۰م

المفتى محمد عطاءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 فتاویٰ امجدیہ، کتاب الطلاق، کنایہ کا بیان،۱/ ۲/۲۳۴، مطبوعۃ: مکتبہ رضویہ، کراچی، طباعت: ۱۴۴۱ھ-۲۰۱۹م
  • 2 وقار الفتاویٰ، کتاب الطلاق ، طلاق رجعی اور بائن کا بیان، ۳/۱۵۹۔۱۶۰، مطبوعہ: بزم وقار الدین ، کراچی، طباعت: ۱۴۲۸ھ۔ ۲۰۰۷م
  • 3 فتاویٰ امجدیہ، کتاب الطلاق،۱/ ۲/۱۸۱، مطبوعۃ: مکتبہ رضویہ، کراچی،طباعت: ۱۴۴۱ھ-۲۰۱۹م
  • 4 بدائع الصنائع، کتاب الطلاق، فصل فی شرط النیۃ فی الکنایۃ، ۴/۲۲۵، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۱۸ھ۔۱۹۹۷م
  • 5 الفتاوی الہندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثانی فی إیقاع الطلاق، الفصل السابع فی الطلاق بالفارسیۃ، ۱/۳۷۹، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳م
  • 6 الذخیرۃ البرھانیّۃ، کتاب الطلاق، الفصل الرابع: فی الکنایات، ۴/۶۹، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۴۰ھ۔ ۲۰۱۹م
  • 7 الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثانی فی إیقاع الطلاق، الفصل السابع بالفارسیۃ، ۱/۳۷۹، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳م
  • 8 کنز الدقائق، کتاب الطلاق، باب الکنایات، ص ۲۷۷، مطبوعۃ: دار البشائر الإسلامیّۃ، بیروت، الطبعۃ الأولی ۱۴۳۲ھ۔۲۰۱۱م
  • 9 البقرۃ: ۲۳۰/۲