True Fatawa

پگڑی کی دکان اور مکان کی خرید و فروخت کا حکم

سوال نمبر: JIA-673

الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ بطورِ پگڑی دکان و مکان کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟ 

سائل:عبد الکریم، بلدیہ ٹاؤن، کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: پگڑی کے نام پر مکان و دکان وغیرہ کا لین دین شرعاً بیع ( تجارت ) نہیں کیونکہ شرعاًبیع مال کے بدلے مال لینے کو کہتے ہیں۔

چنانچہ امام ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی ۷۱۰ھ لکھتے ہیں:

  ھو مبادلۃُ المالِ بالمال بالتّراضی۔1

یعنی، باہمی رضا مندی کے ساتھ مال کو مال سے بدل لینا بیع ہے۔

اور علامہ عبد اللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی ۶۸۳ھ لکھتے ہیں :

  وفی الشّرع:مُبادلۃ المال المتقوّم بالمال المتقوّم۔2

یعنی، شرع میں مالِ متقوّم کو مالِ متقوّم سے بدل لینا بیع کہلاتا ہے۔

لہٰذا یہ معاملہ بیع ہر گز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ مبادلہ المال بالمال نہیں ہے کہ اس میں پگڑی کے طور رقم دینے والا اس مکان یا دکان کا مالک نہیں ہوتا اور اس میں ایک طرف سے مال ہوتا ہے دوسری طرف سے منافع تو وہ اجارہ ہے نہ کہ بیع۔چنانچہ علامہ موصلی حنفی لکھتے ہیں:

  فإن وُجد تملیکُ المالِ بالمنافعِ فھُو إجارۃٌ أو نکاحٌ۔3

یعنی ، پس اگر مال کی تملیک منافع کے عوض پائی جائے تو وہ اجارہ یا نکاح ہے۔

اور حافظ الدین ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی۷۱۰ ھ لکھتے ہیں:

  وھی بیعُ منفعۃٍ معلومۃٍ بأجرٍ معلومٍ۔ 4

یعنی ، وہ (اجارہ ) بیچنا ہے معلوم نفع کو معلوم اجرت کے عوض ۔

اور اس ( پگڑی کے معاملے ) میں مکان یا دوکان لینے والا ماہانہ کرایہ مکان یادوکان دینے والے کو ادا کرتا ہے تو یہ اجارہ ہے اور پھر مالک جو بھاری رقم کرایہ دار سے پگڑی کے نام پر وصول کرتا ہے وہ ان منافع کا عوض نہیں ہے جو کرایہ دار اس مکان یادوکان سے حاصل کرتا ہے کیونکہ اس نفع کے عوض کوکرایہ دار مالک کو کرایہ کی صورت میں اور کرایہ کے نام پر ہر ماہ ادا کرتا ہے۔

اور پگڑی کے نام پر حاصل کی گئی رقم نہ تو ضمانت کے طور پر لی گئی ہے کہ مکان یا دوکان چھوڑنے کے وقت مالک اس کو واپس کرے اور نہ ہی قرض ہے کہ بوقت مطالبہ کرایہ دار کو واپس کیا جائے لینے والے اسے قرض سمجھیں یا امانت بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ ان کا اس رقم کو واپس کرنے کا قطعی طور پر کوئی ارادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مالک واپس کرتا ہے تو ثابت ہوگیا کہ یہ باطل طریقے سے مسلمان کا مال کھانا ہے جو کہ حرام ہے جس سے ہمیں قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے ۔

چنانچہ قرآن مجید میں ہے : 

  وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ۔5

  اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔(کنز الایمان)

اور مفتی اعظم پاکستان، مفتی وقار الدین حنفی قادری متوفی ۱۴۱۳ھ لکھتے ہیں:پگڑی پر مکان لینے والا کرایہ دار ہوتا ہے اس کو پگڑی پر دے کر روپیہ حاصل کرتا ہے تو یہ حرام ہے۔ 6

اور مفتی جلال الدین امجدی حنفی متوفی ۱۴۲۲ھ ’’کرایہ پر مکان لینے کے لئے پگڑی دینا جائز ہے یا نہیں؟‘‘ کے جواب میں لکھتے ہیں : کرایہ پر مکان لینے کے لئے کچھ روپیہ کرایہ کے علاوہ پگڑی کے نام پر دینا اور لینا حرام و ناجائز ہے۔لأنّہ لزوم مال مبتدأ فیکون بطریقِ الرّشوۃ وھو حرامٌ ، ہاں کرایہ پر مکان لینے کے لئے مالکِ مکان کے پاس اگر بطورِ ضمانت پہلے کچھ روپیہ جمع کرے تو یہ جائز ہے۔ وھو أعلم 7

اور پھرجب ایک کرایہ دار وہ مکان یا دوکان چھوڑنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ خود دوسرے کرایہ دار کو تلاش کرتا ہے اور نئے کرایہ دار کو پرانا کرایہ دار وہ مکان کرائے پر دیتا ہے اور اس کے ساتھ وہی ظلم کرتا ہے جو مالک مکان نے اس کے ساتھ کیا تھا وہ اس طرح کہ اس سے اتنا ہی پیسہ پگڑی کے نام پر وصول کرتا ہے جتنا کہ اس نے مالک مکان کو دیا تھا یا اس سے بھی زیادہ لیتا ہے اور یہ ایسے ہے جیسے آپ پر کوئی ظلم کرے اور آپ ظالم کا کچھ بگاڑ نہ سکٰیں تو کسی دوسرے پر ظلم کرکے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرلیں۔ تو یہ جس طرح اوّل کے لئے حرام و ناجائز تھا اسی طرح دوسرے کے لئے حرام و ناجائز ہے۔

اور پھر مالک مکان کا ظلم پگڑی لینے پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ جب بھی کرایہ دار تبدیل ہوتا ہے تو رسید تبدیلی کے نام پر مالک مکان پھر رقم لیتا ہے ورنہ کرایہ دار دوسرے کے نام ٹرانسفر نہیں کرتا یہ بھی ظلم ہے اور اس نام پر لی گئی رقم اس کے لئے حرام ہے۔

اور عوامُ النّاس میں پگڑی کے مکان و دوکان کے لین دین کے لئے خریدنے اور بیچنے کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک مباح تجار ت ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ تجارت کی چند شرائط میں ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ خریدنے والا جب خریدے تو وہ اس خریدی ہوئی چیز کا مالک ہو جائے پگڑی میں ایسا نہیں ہوتا کہ جب پہلی بار اپنا مکان پگڑی پر بقول عوام کے بیچتا ہے تو خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور یہ بھی شرط ہے کہ بیچنے والا جس چیز کو بیچے وہ اس کا مالک ہو تاکہ وہ تجارت کے ذریعے دوسرے کو مالک بنا سکے اور یہاں دوسرا جب اس مکان کو آگے پگڑی پر دیتا ہے بقول عوام کے بیچتا ہے تو وہ خود اس کا مالک نہیں تو ایسی چیز کو بیچنا جس کا بیچنے والا خود مالک نہ ہو اسی چیز کو آگے بیچنا کیسے جائز ہو سکتا ہے اور اس معاملے کو خرید و فروخت کا نام دینا عبث ہے کیونکہ بیع کا حکم یہ ہے کہ اس معاملہ سے خریدنے والا اس چیز کا مالک ہو جائے اور اس معاملے میں مالک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں کہ عدم تملیک و تملّک کے کثیر شواہد موجود نہیں ہیں جیسے ماہانہ کرایہ وصول کرنا ، دوسرے کو مکان دینے کی صورت میں تبدیلی رسید کے نام پر مالک کا پیسہ لینا وغیرہما۔

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: ۱/ شعبان المعظم، ۱۴۲۶ھ۔ ۶/ سبتمبر، ۲۰۰۵م

المفتى محمد عطاءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 کنز الدقائق، کتاب البیوع، ص۴۰۶، مطبوعۃ: دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۳۲ھ-۲۰۱۱م
  • 2 کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب البیوع، ۱/۲/۳، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۲۳ ھ- ۲۰۰۳ م
  • 3  کتاب الاختیار لتعلیل المختار، کتاب البیوع، ۱/۲/۳، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۲۳ ھ- ۲۰۰۳ م
  • 4 کنزالدقائق، کتاب الإجارۃ، ص۵۴۳، مطبوعۃ: دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولٰی ۱۴۳۲ھ - ۲۰۱۱م
  • 5 البقرۃ: ۲/۱۸۸
  • 6 وقار الفتاویٰ ،کتاب الفرائض ، ورثاء کے حقوق کا بیان، ۳/۴۲۴، مطبوعۃ : بزم وقار الدین ، کراچی، طباعت: ۱۴۲۸ھ۔۲۰۰۷م
  • 7 فتاوی فیض الرسول ، اجارہ کا بیان ، ۲/ ۴۱۶ ، مطبوعہ : شبیر برادرز ، لاہور، طباعت: ۱۴۱۴ھ۔۱۹۹۳م