سوال نمبر: 594-F
الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میری بیٹی صائمہ بنت عثمان کی شادی احمد بن یامین کے ساتھ 1999ء میں ہوئی تھی، جب سے میری لڑکی بالغ ہوئی ہے تب سے ہم لوگ پیغام پر پیغام بھیجتے رہے ہیں کہ آ کر رُخصتی لے لو لیکن لڑکے کے گھر والوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور بہت تنگ کیا، آخر کار ہم لوگ 18 ستمبر 2009ء کو لڑکے کے پاس گئے تو اس نے مجھے رُخصتی کے لئے آنے والے 12 ربیع الاول کا ٹائم دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ میں آنے والے 12 ربیع الاول تک نہیں لے کر گیا تو میری طرف سے صائمہ بنت محمد عثمان کو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی، اس طرح ربیع الاول کا پورا مہینہ گزر گیا اور وہ رُخصتی کے لئے نہ آیا اور نہ ہی کوئی پیغام دیا اب صائمہ کا نکاح احمد کے ساتھ برقرار ہے یا طلاق واقع ہو گئی اور طلاق ہونے کی صورت میں عدّت کیا ہو گی۔ محمد احمد بن محمد یامین کی طرف سے دئیے گئے بیان کی فوٹو کاپی سوال کے ساتھ منسلک ہے۔
سائل:محمد عثمان،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صورت مسئولہ میں احمد بن یامین نے اپنی منکوحہ صائمہ بنت محمد عثمان کی طلاقوں کو ربیع الاول میں رخصتی کے لئے نہ آنے پر معلّق کیا اور وہ اس ربیع الاول میں نہ آیا تو صائمہ بنت محمد عثمان پر طلاق مغلّظہ یعنی تین طلاقیں واقع ہو گئیں جیسا کہ تعلیق کا یہی حکم ہے جس کی تفصیل ہمارے دیگر فتاویٰ میں موجود ہے۔
اور وہ اپنے شوہر احمد بن یامین پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی کہ بے حلالہ شرعیہ دوبارہ حلال نہ ہو گی۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَـلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔ 1
پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔ (کنز الایمان)
اور اب صائمہ آزاد ہے جس سے چاہے نکاح کرے ۔
اور عدّت کا حکم یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد زوجین اگر کسی ایسی جگہ اکٹھے ہوئے ہوں کہ اگر کچھ کرنا چاہتے تو کر سکتے اگرچہ کچھ نہ کریں جسے خلوت صحیحہ کہتے ہیں تو عدّت لازم ہو گی اور اگر ایسا موقع نہ آیا تھا تو کوئی عدّت نہیں ہے۔
چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:
یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا۔2
اے ایمان والو جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں بے ہاتھ لگائے چھوڑ دو تو تمہارے لئے کچھ عدّت نہیں جسے گنو۔ (کنز الایمان)
اس کے تحت صدر الافاضل سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر عورت کو قبلِ قُربت طلاق دی تو اس پر عدّت واجب نہیں ۔ خلوتِ صحیحہ قُربت کے حکم میں ہے تو اگر خلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق واقع ہو تو عدّت واجب ہوگی اگرچہ مباشرت نہ ہوئی ہو ۔3
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: یوم الخمیس، ۱۵/ربیع الثانی، ۱۴۳۱ھ ۔ ۱/ابریل، ۲۰۱۰م
المفتى محمد عطاءالله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)