سوال نمبر: 661-F
الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میری خالہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے ترکہ میں کچھ نقد رقم، سونا، گھریلو اشیاء، کپڑے، کھانے پینے کا کچھ سامان ، فریزر، ٹی وی وغیرہ وغیرہ ہیں۔ میری خالہ کی کوئی اولاد نہیں ہے ورثاء میں ان کی ایک بہن زندہ ہے ان کی بھی کوئی اولاد نہیں ہے، ایک بہن کاانتقال ہوچکا ہے جن کے بیٹے ہیں اور انکے دو بھائی تھے جو انتقال کرگئے ہیں اور انکی اولاد میں بیٹے اوربیٹیاں حیات ہیں۔مرحومہ نے انتقال سے پہلے زبانی وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کے بعد تدفین، سوئم اور ایصال ثواب کی جتنی مجلسیں ہوں وہ میری رقم سے کی جائیں۔عرض ہے کہ اس سلسلے میں وراثت کی تقسیم میں تحریری رہنمائی کی جائے۔
سائل:محمد سلیم برکاتی، کھارادر، کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صورت مسئولہ میں برتقدیر صدق سائل و انحصار ورثاء درمذکورین مرحومہ کی تجہیزوتکفین یعنی کفن دفن کا خرچ نکالنے کے بعد کسی کا کوئی قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا پھر جو بچے اس کے تین حصے کرکے ایک حصہ میں سے وصیت کو جاری کیا جائے گا۔
نفاذِ وصیت کے بعد جو بچے اس کا آدھا مرحومہ کی بہن کو ملے گا اور اس کی دلیل قرآنِ کریم کی یہ آیت ہے:
وَ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَك1
اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے۔ (کنز الایمان)
اور باقی آدھا مرحومہ کے بھتیجوں کو عصبہ کے طور پر ملے گا۔
چنانچہ امام ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل بخاری متوفی۲۵۶ھ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔2
یعنی،ذوی الفروض کو ان کے مقررہ حصے دوجوباقی بچے وہ قریبی مرد کے لئے ہے۔
اور بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملےگا۔چنانچہ علامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی متوفی ۶۰۰ھ اور ان کے حوالے سے علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:
مَن لا فرضَ لھا مِن الإناث وأخوھا عصبۃٌ لا تصِیر عصبۃً بأخیھا کالعمّ والعمّۃ المال کلّہ للعمّ دون العمّۃ۔34
یعنی،عورتوں میں سے جس عورت کا حصہ مقرر نہیں ہے اور اس کا بھائی عصبہ ہے وہ اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ نہیں ہوگی جیسے چچا اور پھوپھی ہے تو سارا مال چچا کے لئے ہوگا نہ کہ پھوپھی کے لئے۔
اور مفتیِ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین حنفی متوفی ۱۴۱۳ھ لکھتے ہیں: وہ عورتیں جن کا فرض حصہ نہیں ہے مگر ان کا بھائی عصبہ ہے وہ اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ نہیں ہوں گی۔ کیونکہ قرآن کریم میں صرف بیٹیوں اور بہنوں کو ہی اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ قرار دیا گیا ہے۔ 5
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: یوم الجمعۃ، ۳۰/رمضان المبارک، ۱۴۳۱ھ ۔ ۱۰/سبتمبر، ۲۰۱۰م
المفتى محمد عطاءالله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)