True Fatawa

بیمہ پالیسی کا حکم

سوال نمبر:JIA-900

الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بیمہ شرعاً جائز ہے یا نہیں جب کہ بیمہ کی کئی اقسام ہیں او رانشورنس کمپنی والے ایک کتابچہ بھی دیتے ہیں جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ بیمہ جائز ہے اور کچھ علماء کے فتاویٰ بھی اس میں درج ہیں، وہ کتابچہ سوال کے ساتھ منسلک ہے، اسی طرح کچھ چھپے ہوئے اصول و ضوابط بھی سوال کے ساتھ منسلک ہیں۔

سائل: عبداللہ قادری محمود آباد کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ ’’بیمہ کی اسلامی حیثیت‘‘ جو سوال کے ساتھ ارسال کیا گیا اس میں جوازِ بیمہ پر ذکر کردہ آیات و احادیث سے ہرگز ہرگز جواز ثابت نہیں ہوتا اور اس کتابچے میں فتویٰ کے عنوان کے تحت جن لوگوں کی آراء تحریر کی گئیں اُن آراء کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جن لوگوں نے بیمہ کے جواز کافتویٰ دیا ہے وہ بیمہ کی حقیقت کو ہی نہیں سمجھتےاسلام نے بچت کی تعلیم ضرور دی ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اپنی آمدنی کا کچھ حصہ مستقبل کے لئے بچا کر رکھے مگر بیمہ کو بچت قرار دینا غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔

اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت قائم شدہ یہ شعبہ تجارتی کاوربار کے بجائے مالیاتی توسط کا کام کرتا ہے یعنی وہ لوگوں کی بچتیں سود کے آلہ سے اپنے ہاں جمع کرتا ہے اور انہیں دوسرے لوگوں کو فراہم کر کے اس پر سود کماتا ہے جس کا کچھ حصہ اُن لوگوں کو بھی دیتا ہے جو اپنا بچا ہوا روپیہ بیمہ کمپنی کو دیتے ہیں اور اسے تجارت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس میں پائی جانے والی خرابیوں کے سبب علمائے حقّہ نے حرام و ناجائز قرر دیا ہے۔

اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ جو کسی کا مالی نقصان کرے وہ بقدر نقصان تاوان دے گا۔

چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:

  فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ1

  توجو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی۔ (کنز الایمان)

اس لئے چوری، ڈکیتی، اور آگ لگنے وغیرہ کا بیمہ ناجائز ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب مال کا نقصان بیمہ کمپنی نے نہیں کیا تو وہ تاوان بھلا کیوں دے اور پھر زندگی کا بیمہ اور ہر قسم کے بیمہ میں جوا کا عنصر موجود ہے کہ نہ جانے زندگی کے بیمہ کی کتنی اقساط ادا کرے اور موت آجائے اور جتنی رقم کا بیمہ تھا وہ پوری کی پوری ورثاء کو مل جائے اور اگر زندہ رہ گیا تو وہی دی ہوئی رقم مع سود کے واپس مل جائے گی، غرض یہ ہے کہ بیمہ مُحرّمات کا مجموعہ ہے، اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین نفی قادری متوفی ۱۴۱۳ھ نے اپنے متعدّد فتاویٰ میں اسے حرام لکھا ہے۔ چنانچہ ’’وقار الفتاویٰ‘‘ میں بیمہ کے بارے میں دئیے گئے فتاوی میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

الإستفتاء:بیمہ زندگی کا منصوبہ، جس حالت میں معینہ مدت کے اندر تین ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں اور ادا کردہ رقم زیادہ واپس کی جاتی ہے، اس معاہدے پر کہ حالتِ حادثہ میں بیمہ شُدہ شخص کو حادثے کی نوعیت کے مطابق مدد کی جائے گی اور نقد معاوضہ دیا جائے گا، جب کہ بصورتِ نقصانِ زندگی بیمہ دہندہ کے ہدایت کردہ لواحقین کو رقم دی جائے گی تاکہ وہ اپنے گزر اوقات کر سکیں۔ مزید برآں اصول امدادباہمی کے تحت بیمہ شُدہ شخص کو 10 فیصد سالانہ منافع کے ساتھ ادائیگی کی شرط پر قرضہ کی سہولت بھی حاصل ہے۔

جائیداد و املاک وغیرہ میں ایک شخص اپنی املاک و جائیداد کو مختلف خطرات سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کا بیمہ کرواتا ہے جس کے لئے وہ کمپنی کو کچھ معاوضہ دے کر سال بھر کے لئے اپنی املاک و جائیداد کا بیمہ کروا لیتا ہے، ایک سال گزرنے پر اس کی ادا کی ہوئی رقم واپس نہیں ملتی، ہاں اگر اس اثناء میں بیمہ شُدہ املاک کو کوئی گزند پہنچے یا نقصان سے دوچار ہوں تو نقد رقم کی صورت میں اس کا ازالہ کر دیا جاتا ہے، کیا یہ سب کام کرنے والے ادارے، ان کے ایجنٹ اور ملازمین جائز طور پر پیسہ کماتے ہیں یا حرام طور پر؟

الجواب:ہر قسم کا بیمہ ناجائز ہے، اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ جو کسی کا مال نقصان کرے گا وہی ضامن ہو گا اور بقدر نقصان تاوان دے گا، قرآنِ کریم میں ہے:

  فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ2

  یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کر لو (لیکن) اسی قدر جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہو۔

لہٰذا چوری، ڈکیتی، آگ لگنے اور ڈوبنے وغیرہ کا بیمہ ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب مال کا نقصان انشورنس کمپنی نے نہیں کیا تو وہ تاوان کیوں دے گی؟ پھر زندگی کے اور دیگر ہر قسم کے بیمے میں جوا بھی شامل ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ زندگی کے بیمے کی کتنی قسطیں ادا کرے گا کہ کہ موت آ جائے گی اور وہ پوری رقم (جتنے کا بیمہ تھا) اس کے وارثوں کو مل جائے گی، اور اگر زندہ رہ گیا تو دی ہوئی رقم مع سود کے واپس مل جائے گی۔ غرض یہ کہ بیمہ، مُحرّمات کا مجموعہ ہے، اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے لوگوں سے جو روپیہ لیا جاتا ہے وہ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جن کا نقصان ہوتا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو جتنا روپیہ وصول کیا جاتا ہے وہ ان لوگوں کی اجازت سے جن سے لیا گیا ہے، اگر نقصان زدہ لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے تو پھر انشورنس کمپنیاں کروڑوں روپے سالانہ کہاں سے کماتی ہیں؟ معلوم ہوا کہ یہ عذر صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے گھڑے گئے ہیں۔ 3

الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ از روئے اسلام بیمہ زندگی جائز ہے یا نہیں؟ اگر بیمہ زندگی خریدا جائے تو کیا اس میں مضائقہ ہے؟ 

الجواب:بیمہ ناجائز ہے۔ زندگی کے بیمے میں کمپنی بیمہ کروانے والے کی زندگی میں یا ا س کے مرنے کے بعد جو ادائیگی کرے گی اس میں سے جتنا اس شخص نے ادا کیا تھا، محض اسی قدر روپیہ کمپنی سے لینا جائز ہے اور جس قدر کمپنی نے زائد دیا وہ سود ہے، اس کا لینا جائز نہیں اور اگر لے لیا تو یہ اصل سے زائد رقم کسی غریب کو بغیر نیتِ ثواب دے دینا واجب ہے۔4

الإستفتاء:بیمہ زندگی کروانا اور بیمہ پالیسی پر جو منافع متعلقہ کمپنیاں دیتی ہیں، لینا اور وفات کے بعد جو پیسہ بیمہ پالیسی کے ضمن میں اہلِ خانہ کو ملتا ہے، اس کا لینا جائز ہے یا ناجائز؟ فتویٰ صادر فرمائیں۔

الجواب:بیمہ ناجائز ہے۔ زندگی کے بیمے کے متعلق کمپنی بیمہ شُدہ شخص کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد جو ادائیگی کرے گی اس میں سے جس قدر اس شخص نے ادا کیا تھا اتنا ہی روپیہ کمپنی سے لینا جائز ہے اور جو زیادہ لیا وہ سود ہے، اس کا لینا جائز نہیں، اگر لے لیا ہے تو اس کو بلا ارادہ صدقہ و ثواب کسی مستحق شخص کے حوالے کر دینا واجب ہے۔ بیمہ زندگی کے علاوہ کسی قسم کے بیمے میں کوئی کلیم نہیں لیا جا سکتا۔5

الإستفتاء:بخدمت جناب مفتی صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ از راہ کرم زندگی کے بیمہ کے متعلق شرعی فتویٰ صادر فرمائیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ نیت کی جائے کہ ہم اپنی اولاد، بیوی، والدین وغیرہ کے لئے ایک جبری بچت کرتے ہیں تاکہ اچانک حادثہ یا موت کی صورت میں ورثاء کے لئے ایک سہارا میسر آ جائے۔ برائے کرم تفصیل سے مُطلّع فرمائیں۔

الجواب:شریعت کا قاعدہ ہے کہ: المالُ بالمالِ۔

یعنی، مال کے بدلے مال لیا جا سکتا ہے۔

یعنی :کسی کا مال ضائع ہو جائے تو ضائع کرنے والے سے اس کا تاوان لیا جائے گا، بیمہ کی حقیقت یہ ہے:مثلاً کسی نے بیس سال کے لئے بیمہ کروایا اور ہزار روپیہ سالانہ اس کی قسطیں ادا کرنا طے پائیں، اگر یہ شخص بیس سال تک زندہ رہا تو اس کو بیس ہزار روپے یکمشت مل جائیں گے اور اس بیس ہزار روپے کا متذکرہ مدّت کا سود بھی اس کو ملے گا اور اگر بیس سال سے پہلے مر گیا تو بھی اس کے مُعیّنہ وارثوں کو بیس ہزار روپے مل جائیں گے۔ یہ دونوں صورتیں حرام ہیں، پہلی صورت میں سود لیا جو حرام ہے، دوسری صورت میں اس نے ادا تو کئے تھے دوچار ہزار روپے اور اس کے وارثوں کو ملیں گے بیس ہزار روپے۔ اس نے جتنے ادا کئے تھے وہ اس کا حق تھا اور جتنے زیادہ لئے وہ دوسروں کا مال، باطل طریقے سے لیا جوحرام ہے۔ جن لوگوں نے جواز کے فتوے دئیے ہیں وہ بیمہ کی حقیقت ہی نہیں سمجھتے، اسلام بچت کی تعلیم ضرور دیتا ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اپنی آمدنی کا کچھ حصہ مستقبل کے لئے بچا کر رکھے، مگر بیمہ کو بچت قرار دینا محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے، بیمہ جائز ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ 6

الإستفتاء:ایک دوست بیمہ ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں، انہوں نے انشورنس پالیسی میرے لئے خرید لی، میں اس کاروبار کو سودی تصوّر کرتا ہوں لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کاروبار بغیر سود کے بھی ہو سکتا ہے اور ا س کی تفصیل وہ یہ بتاتے ہیں: سودی پالیسی کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کوئی شخص 50,000 ہزار کی پالیسی لیتا ہے تو اس کو 20 سال کے بعد ایک لاکھ سات ہزار روپے ملیں گے اور اگر وہ شخص خدانخواستہ فوت ہو جائے تو اس کے ورثاء کو 50,000 روپے کی پالیسی اور جتنا اس نے بیمہ ادا کیا ہے اس کا منافع ملے گا۔ جب کہ غیر سودی پالیسی کا طریقہ یہ ہے کہ اگر 50,000 کی پالیسی ہے تو متعلقہ شخص کو 20 سال بعد 50,000 روپے جو اس نے ادا کئے صرف وہی ملیں گے۔ لہٰذا جواب طلب امر یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کے لئے غیر سودی پالیسی خرید سکتا ہوں یا نہیں؟ جب کہ میرا اپنا اس میں کوئی لالچ نہیں ہے، بلکہ یہ بیمہ بھی ادا کرنا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ میں ان کے کاروبار میں معاونت کر سکتا ہوں یا نہیں؟

الجواب:قرآن کریم کے واضح حکم کے مطابق سود مطلقاً حرام ہے ۔

  وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ7

  حالانکہ حلال فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجارت اور حرام کیا سود کو۔

لہٰذا نشورنس کا طریقہ کار سودی ہے تو ظاہر ہے کہ حرام ہے۔

دوسرا طریقہ کار جسے آپ نے غیر سودی لکھا ہے دراصل آپ نے اس کی تشریح غلط کی ہے، اگر پچاس ہزار روپے کی پالیسی پر مدّت پالیسی گزرنے کے بعد بھی اتنا ہی روپیہ کمپنی دیتی ہے جتنا روپیہ بیمہ کروانے والے نے جمع کیا تھا تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنا روپیہ انشورنس کمپنی کو کس لئے دے گا جب کہ کوئی فائدہ بھی نہ ہو، آپ نے جو حصہ چھوڑ دیا ہے وہ یہ کہ مدّت پوری ہونے سے پہلے بیمہ کروانے والے کی موت واقع ہو جائے جب بھی کمپنی پچاس ہزار روپے دے گی، اور یہ جوا ہے لہٰذا پالیسی متذکرہ دونوں صورتوں میں حرام ہے۔

حرام کام کا ارتکاب کرنا بھی جرم ہے اور اس سلسلے میں کسی کی مدد و معاونت بھی قرآنی تعلیمات کے سراسر منافی ہے:

  وَ لَا تَعَاوَنُوْاعَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۔8

  اور باہم مدد نہ کرو گُناہ اور زیادتی پر۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ پر اس معاونت سے کنارہ کشی اور اجتناب لازم ہے۔ 9

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: یوم الخمیس، ۱/جمادی الثانی، ۱۴۲۹ھ ۔ ۵/ایونیو، ۲۰۰۸م

المفتى محمد عطاءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 البقرۃ:۱۹۴/۲
  • 2 البقرۃ:۱۹۴/۲
  • 3 وقارالفتاوی،حرام کا بیان،۱/۲۳۹۔۲۴۰،مطبوعۃ:بزم وقارالدین، طباعت: ۲۰۰۶م
  • 4 وقارالفتاوی،حرام کا بیان،۱/۲۴۰،مطبوعۃ:بزم وقارالدین، طباعت: ۲۰۰۶م
  • 5 وقارالفتاوی،حرام کا بیان،۱/۲۴۱،مطبوعۃ:بزم وقارالدین، طباعت: ۲۰۰۶م
  • 6 وقارالفتاوی،حرام کا بیان،۱/۲۴۱۔۲۴۲،مطبوعۃ:بزم وقارالدین، طباعت: ۲۰۰۶م
  • 7 البقرہ:۲/۲۷۵
  • 8 المائدۃ:۲/۵
  • 9 وقارالفتاوی،حرام کا بیان،۱/۲۴۲۔۲۴۳،مطبوعۃ:بزم وقارالدین، طباعت: ۲۰۰۶م