True Fatawa

بیوی کو ’’میں نے تجھے اپنے نکاح سے خارج کیا‘‘کہنے کا حکم

سوال نمبر: JIA-330

الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کسی بات پر اپنی بیوی پر ناراض ہوتے ہوئے یہ کلمات کہے کہ ’’میں نے تجھے اپنے نکاح سے خارج کیا میں نے تجھے اپنے نکاح سے خارج کیا میں نے تجھے اپنے نکاح سے خارج کیا‘‘ تو اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں اور اگر واقع ہوگی تو کونسی اور کتنی؟

سائل:محمد علی، بولٹن مارکیٹ، کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صورت مسئولہ میں ذِکر کردہ الفاظ کہ ’’میں نے تجھے اپنے نکاح سے خارج کیا‘‘ یہ الفاظ کنایہ سے ہیں کیونکہ یہ طلاق کا احتمال رکھتے ہیں۔

چنانچہ فقیہ النفس علامہ حسن بن منصور اُوزجندی حنفی متوفی ۵۹۲ھ لکھتے ہیں:

  الکنایۃُ ما یحتملُ الطّلاق ولا یکونُ الطّلاق مذکوراً نصّاً۔1

یعنی، الفاظ کنایہ وہ ہیں جو طلاق کا احتمال رکھتے ہیں اور طلاق کا لفظ صراحت کے ساتھ مذکور نہ ہو۔

اور ان سے صرف ایک طلاق بائن واقع ہوئی۔ دوسری اور تیسری بار یہی الفاظ کہے اس سے دوبارہ طلاق واقع نہ ہوگی۔ اس لئے کہ بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی۔

چنانچہ علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ اور اُن سے علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۱۶۱ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے:

  ولا يَلحق البائنُ البائنَ بأن قال لها أنتِ بائنٌ ثمّ قال لها أنتِ بائنٌ لا يقعُ إلّا طَلقةٌ واحدةٌ بائنةٌ؛ لأنّه يُمكن جَعلُه خبرًا عن الأوّل۔ 23
یعنی، بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی بایں طور کہ شوہر نے بیوی سے کہا تو بائن ہے پھر کہا تو بائن ہے تو صرف ایک بائنہ واقع ہوگی کیونکہ اسے اوّل کی خبر قرار دینا ممکن ہے۔

کیونکہ ایک مرتبہ جب طلاقِ بائن دی تو پھر دوبارہ طلاقِ بائن اس کو نہیں ہوگی۔ جب تک کہ کوئی ایسا لفظ نہ بولے جس سے نئی طلاق ہونے کا پتا چلتا ہو، ورنہ بعد کا لفظ پہلے والے کی ہی تاکید مانا جائے گا اس لئے صرف ایک ہی طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے۔

ایسا ہی مفتیِ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین حنفی متوفی ۱۴۱۳ھ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے4

اب اگر یہ دونوں میاں بیوی چاہیں تو عدّت کے دوران یا عدّت کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، حلالے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور دوبارہ نکاح کی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار رہے گا، جب بھی مزید دو طلاقیں دے گا تو عورت اُس پر حُرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی اور پھر بے حلالہ شرعیہ دوبارہ حلال نہ ہوگی، تفصیل ہمارے دیگر فتاویٰ میں ملاحظہ کریں۔

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: یوم الأربعاء، ۹/شعبان المعظم، ۱۴۲۳ھ ۔ ۱۶/اکتوبر، ۲۰۰۲م

المفتى محمد عطاءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 فتاوی قاضیخان علی ھامش الھندیۃ، کتاب الطلاق، فصل فی الکنایات والمدلولات، ۱/۴۶۷، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت، الطبعۃ الثالثۃ ۱۳۹۳ھ- ۱۹۷۳م
  • 2 رمز الحقائق، کتاب الطلاق، باب فی بیان أحکام الکنایات، ۱/۲۴۶، مطبوعۃ: إدارۃ القرآن، کراتشی، الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۲۴ھ ۔ ۲۰۰۴م
  • 3 الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثانی فی إیقاع الطلاق، الفصل الخامس فی الکنایات، ۱/۳۷۷، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الثالثۃ ۱۳۹۳ھ ۔ ۱۹۷۳م)
  • 4 وقار الفتاویٰ، طلاقِ رجعی اور بائن کا بیان، ۳/۱۶۰، مطبوعہ: بزم وقار الدین، کراچی، طباعت: ۱۴۲۸ھ۔۲۰۰۷م