سوال نمبر: JIA-390
الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ہیں تقریباً چار پانچ سال پہلے ان کے درمیان جھگڑا ہو رہا تھا تو اس وقت بھی شوہر نے میں طلاق دیتا ہوں کے الفاظ ادا کئے تھے۔
لیکن پھر درگزر کرکے صلح ہوئی، ساتھ رہتے رہے لیکن حال ہی میں رمضان المبارک کے ساتویں یا آٹھویں دن جھگڑے میں بیوی اپنے والدین کے گھر گئی اور شوہر بھی ان کے یہاں پہنچا اس وقت عزیز و رشتہ دار ایک موجود تھے ایک رشتہ دار نے لڑکے کو برا بھلا کہا کہ تم عورت کو نہیں سنبھال سکتے ہو تم نامرد ہو۔
اس پر لڑکے نے کہا کہ تم چاہتے ہو میں طلاق دے دوں پھر لڑکے نے کہا کہ چلو میں نے طلاق دی یہ الفاظ نکالتے ہی فوراً ایک لڑکے نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ دوسرا الفاظ ادا نہ کرسکے اور نہ ادا کیا۔
اس طرح چار پانچ سال پہلے یہ الفاظ کہہ دیئے تھے اور رمضان کے مہینے میں پھر دوسری مرتبہ یہ الفاظ ادا کئے اس طرح دو مرتبہ طلاق دی کے الفاظ کہہ دیئے تھے اور میاں بیوی بھی دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دو مرتبہ طلاق دی ہے۔
لہٰذا جناب اس اہم مسئلہ کے مطابق فتویٰ جاری فرمائیں کہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلہ میں کیا فرماتی ہے تاکہ ہم شرعی فتویٰ کے مطابق فیصلہ کرسکیں اور غیر شرعی فیصلے سے بچ جائیں۔
سائل: حاجی عبد العزیز، جامع مسجد محمدی الیاس گوٹھ، لیاقت آباد، کراچی وسطی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں برتقدیر صدقِ سائل شوہر نے جب پہلی بار اپنی بیوی سے کہا تھا کہ ’’میں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھی کیونکہ یہ لفظ طلاق میں صریح ہے۔
چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ لکھتے ہیں:
(صریحہُ ما لم یُستعمَل إلّا فیہ کطلّقتُک وأنتِ طالقٌ ومُطلّقۃٌ یقعُ بہا أی بہذہِ الألفاظِ وما بمعناہَا مِن الصّریحِ (واحدۃً رجعیّۃً)۔ ملخّصًا1
یعنی، طلاق کے صریح الفاظ وہ ہیں جو صرف طلاق کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں جیسے میں نے تجھے طلاق دی، اور تو طلاق والی ہے اور تو مطلّقہ ہے ان الفاظ سے اور اُن الفاظِ صریحہ سے جو ان کے ہم معنی ہوں، ایک رجعی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
اس کے تحت علامہ ابراہیم حلبی حنفی لکھتے ہیں:
قولہ: وما بمعناھا: أی من الأمر کونی طالقًا أو أُطلُقی کما سیأتی و المضارع نَحو أطَلِّقک إذا غلب فی الحال کذا فی البَحر عن الفَتح۔2
یعنی، جو الفاظِ صریحہ کے ہم معنی ہوں یعنی اَمر سے ’’تو طلاق والی ہوجا‘‘جیساکہ عنقریب آئے گا اور صیغہ مضارع سے مثلاً میں تجھے طلاق دیتا ہوں جب کہ حال میں غالب ہو، اسی طرح ’’بحر‘‘3میں ’’فتح القدیر‘‘4کے حوالے سے ہے۔
اس کے تحت علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:
وقولُہ وما بمعناہَا مِن الصّریحِ أی مثلُ ما سیذکرُہ من نَحو: کُونی طالقًا ویا مُطلّقۃ بالتّشدید، وکذا المضارعُ إذا غلبَ فی الحال مثلُ أطلّقک کما فی ’’البَحر‘‘۔5
یعنی، اور صاحب دُر کا قول ’’اور جو الفاظ صریحہ ان کے ہم معنی ہوں‘‘ یعنی جیسے تو طلاق والی ہو جا یا تشدید کے ساتھ اے مطلّقہ اور اس طرح مضارع جب کہ حال میں غالب ہو مثلاً میں تجھے طلاق دیتا ہوں جیسا کہ ’’بحر الرائق‘‘میں ہے۔
اور اگر اس طلاق کے بعد شوہر نے عدّت کے اندر رُجوع کرلیا تھا تو وہ عورت بدستور اس کی بیوی رہی اور آئندہ اس کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی تھا۔
پھر چار پانچ سال بعد جب جھگڑے کے بعد بیوی اپنے میکے گئی اور شوہر اسے لینے کے لئے پہنچا تو عورت کے رشتہ داروں میں سے کسی کے اسے برا بھلا کہنے اور یہ کہنے کہ تم عورت کو نہیں سنبھال سکتے ہو تم نامرد ہو، کے جواب میں شوہر کا یہ کہنا کہ ’’ تم چاہتے ہو میں طلاق دے دوں چلو میں نے طلاق دی‘‘ اگرچہ شوہر کے ان الفاظ میں اضافت نہیں اور وقوعِ طلاق کیلئے اضافت ضروری ہے۔
چنانچہ علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
لم یَقع لترکہِ الإضافۃَ إلیہَا۔6
یعنی، اس کے عورت کی جانب اضافت ترک کرنے کی وجہ سے طلاق واقع نہ ہوگی۔
مگر چونکہ ملامت کرنے والے رشتہ دار کو جو اس کی بیوی کے بارے میں اسے ملامت کر رہا تھا شوہر کا یہ کہنا ’’تم چاہتے ہو میں طلاق دے دوں‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ تم چاہتے ہو کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں اور پھر شوہر کا یہ کہنا ’’چلو میں نے طلاق دی‘‘ اس کے یہی معنی ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔
کیونکہ کلام میں اضافت کا صراحۃً پایا جانا ضروری نہیں ہے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:
المفتى محمد عطاءالله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)