سوال نمبر:JIA-683
الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں عُلمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ میں کہ میں مسمّی محمد حنیف اپنی بیوی کو اُس کے ماں کے گھر سے اُسے لینے گیا تو میرے بات کرنے پر جھگڑا ہوگیا مختصر یہ کہ میں نے غصے میں یہ لفظ کہہ دیئے کہ تم اگر نہیں آؤ گی تو میں کاغذ بھیج دوں گا۔ اُس کے تمام گھر والے کہہ رہے ہیں کہ تمھاری بیوی کو طلاق ہوگئی اور میں نے تو غصے میں ایک بار یہ لفظ کہا کہ میں کاغذ بھیج دوں گا، اور ابھی تک میں نے طلاق کا نام نہیں لیا مفتی صاحب آپ شریعت مطہرہ کی رُو سے بتائیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں ۔
سائل:محمد حنیف ، بغدادی ،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صُورتِ مسئولہ میں سائل نے اگر یہی الفاظ کہے اس کے علاوہ کچھ نہ کہا تھا تو اِن الفاظ سے شریعتِ مطہرہ کی رُو سے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی کیونکہ مذکورہ الفاظ طلاق کے الفاظ میں سے نہیں، نہ صریح اور نہ کنایہ اور اگر ہوتے تب بھی طلاق واقع نہ ہوتی کیونکہ پھر وہ وعدۂ طلاق ہوتا نہ کہ طلاق اور وعدۂ طلاق ، طلاق نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:
صیغۃُ المضارعِ لا یقعُ بھا الطّلاقُ إلّا إذا غلبَ فی الحالِ۔1
یعنی، مضارع کے صیغے سے طلاق واقع نہیں ہوتی مگر جب حال میں غلبہ ہو۔
اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۱۶۱ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:
قالت طلاق بدستِ تُو است مرا طلاق كُن فقال الزّوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرّر ثلاثًا طلُقت ثلاثًا بخلافِ قوله كُنم لأنّه استقبالٌ فلم يكن تحقيقًا بالتّشكيكِ. وفي ’’المُحيط‘‘ لو قال بالعربيّة أطلّق لا يكون طلاقًا إلّا إذا غلب استعمالُه للحالِ فيكونُ طلاقًا۔2
یعنی،بیوی نےشوہرکوکہا:’’طلاق تیرےاختیارمیں ہےمجھےطلاق دےدے‘‘توشوہرنےجواب میں تین بارکہا’’میں طلاق دےرہا ہوں‘‘توتین طلاقیں واقع ہوں گی،اس کےبرخلاف اگریوں کہے’’میں طلاق دوں گا‘‘توطلاق نہ ہوگی کیونکہ یہ استقبال ہےلہٰذاشک ہوگااورطلاق نہ ہوگی۔اور’’محیط‘‘3میں ہے:اگرعربی میں صیغۂ مضارع(أطلّق)کہاتوطلاق نہ ہوگی مگرجب یہ لفظ غالب طورپرحال کےلئےاستعمال ہوتاہوتوطلاق ہوجائےگی۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:یوم الثلاثاء،۱۹/شوال،۱۴۲۶ھ۔۲۲/نومبر،۲۰۰۵م
المفتى محمد عطا الله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)