True Fatawa

مستحق رشتہ دارکوزکوۃ دینےکاحکم

سوال نمبر: JIA-661

الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جن بھائیوں کو یہ علم ہو کہ انکی بہن کا علاج انکا بہنوئی اسپتال میں زکوٰۃ یا (Doner) اکاؤنٹ میں کراتا ہے۔تو کیا صاحبِ حیثیت بھائی جو زکوٰۃ نکالتے ہیں اُن کی زکوٰۃ پر (First) پہلا حق انکی اپنی سگی بہن کا ہے ، یا غیر کا ،اگر غیر کو دیتے ہیں۔ تو اسکی حیثیت کیا ہے سگی بہن کو نہیں دیتے تو ؟

سائل:محمد حنیف ولد محمد یوسف ، کراچی


بإسمہ تعالٰی و تقدس الجواب: اگرکسی کی سگی بہن زکوٰۃ کی حقدار ہے اور وہ زکوٰۃ اپنی بہن کو نہیں دیتا دوسروں کو دیتا ہے تو بھی اس کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی لیکن اُسے چاہیے کہ قریبی رشتہ داروں میں جو مستحقِ زکوٰۃ ہوں اور ان کو شرعاً زکوٰۃ دے بھی سکتا ہو تو اپنی زکوٰۃ ان ہی کو دے کہ ایسے شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔

چنانچہ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ھ اپنی سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں:

  لَکَ أَجْرَانِ أجْرُ الصَّدَقُۃِ وَأَجْرُ الصِّلَۃِ۔1

یعنی ،تیرے لئے دو اجر ہیں ایک صدقے کا اجر دوسرا صلہ رحمی کا۔

اور امام مسلم بن حجّاج قشیری متوفی۲۶۱ھ اپنی سند کے روایت نقل کرتے ہیں:

  لَھُمَا أَجْرَانِ أجْرُ القَرَابَۃِ، وَأجْرُ الصّدَقَۃِ۔2

یعنی،ان کےلئےدوثواب ہوں گےایک ثواب قرابت اوردوسراتصدق کا۔

تو ثابت ہوا کہ اپنا قریبی رشتہ دار اگر مستحقِ زکوٰۃ ہو تو اس کو زکوٰۃ دینے میں دو ثواب ہیں ایک زکوٰۃ ادا کرنے کا دوسرا صِلہ رحمی کا ثواب اور صِلہ رحمی کے لئے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

  وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۔3

  اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ( کنز الایمان )

اس آیت کے تحت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں:

  (رشتوں کا لحاظ رکھو ) انہیں قطع نہ کرو، حدیث شریف میں ہے :جو رزق کی کشائش چاہے اس کو چاہیے کہ صِلہ رحمی کرے اور رشتہ داروں کے حقوق کی رعایت رکھے۔4

لہٰذا اس میں شک نہیں کہ زکوٰۃ میں پہلا حق قریبی رشتہ داروں کا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شرعاً مستحقِ زکوٰۃ ہوں یعنی نصاب کے مالک نہ ہوں پھر بھی اپنی زکوٰۃ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ دوسروںکو دیتا ہے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔مگر دوہرے اجر کا حقدار نہیں ہوگا۔

چنانچہ علامہ ابوبکربن علی حدادی حنفی متوفی۸۰۰ھ اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اورعلمائے ہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:

  والأفضلُ في الزّكاة والفِطر والنّذور الصّرفُ أوّلًا إلى الإخوة والأخواتِ ثمّ إلى أولادهم ثمّ إلى الأعمام والعمّات ثمّ إلى أولادهِم ثمّ إلى الأخوال والخالات ثمّ إلى أولادهم ثمّ إلى ذوِي الأرحام ثمّ إلى الجِيران ثمّ إلى أهل حِرفَته ثمّ إلى أهل مِصره أو قَريته56

یعنی،زکوٰۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہےکہ اوّلاًاپنےبھائی بہنوں کودےپھراُن کی اولادکوپھرچچاؤں پھوپھیوں کوپھر اُن کی اولادکوپھراپنےماموؤں اورخالاؤں کوپھراُن کی اولادکوپھردوسرےرشتہ داروں کوپھرپڑوسیوں کوپھراپنےپیشہ والوں کوپھر اپنےشہراورگاؤں والوں کودے۔

اورامامِ اہلسنّت امام احمدرضاخان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتےہیں:

  بیشک زکوٰۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں قریبوں کو دینا افضل اور دو چنداجرکاباعث ہےمگر یہ اسی صورت میں ہے کہ وُہ صدقہ اس کے قریبوں کو جائز ہو7


{{quote | ar-quote |واللہ تعالی أعلم بالصواب}}

تاریخ اجراء: یوم الأحد،۳/شعبان المعظّم،۱۴۲۵ھ۔۱۹/سبتمبر،۲۰۰۵م

المفتى محمد عطا الله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ ، باب الزکاۃ علی الزوج والإیتام فی الحجر، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت، ۱۴۲۰ھ-۱۹۹۹م
  • 2 صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الأبوین والأولاد، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت
  • 3 النسآء:۴/۱
  • 4 (خزائن العرفان،سورۃ النساء،تحت الآیۃ:۱،ص۱۳۹،مطبوعـۃ: ضیاء القرآن،لاہور)
  • 5 السراج الوھّاج،کاب الزکاۃ،باب من یجوز دفع الصدقۃ إلخ،۱/۴۶۴،مخطوط مصوّر
  • 6 الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،۱/۱۹۰،مطبوعۃ:دارالمعرفۃ، بیروت،الطبعۃ الثالثۃ ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳م
  • 7 فتاویٰ رضویہ،کتاب الزکوٰۃ،۱۰/۲۸۷۔۲۸۸،مطبوعہ:رضافاؤنڈیشن،لاہور،طباعت:۱۴۱۷ھ۔۱۹۹۶م