سوال نمبر:JIA-677
الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ لڑکے (اسحاق احمد نے فون کرکے لڑکی کے بھائی کو بلوایا اور کہا کہ اپنی بہن کو اپنے گھر لے جاؤ، بھائیوں نے بہن سے جب معلوم کیا تو اس نے بتایا دو دن سے مسلسل تشدّد کر رہے ہیں ، بھائی اپنی بہن کو ساتھ لے آئے، اس کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد تقریباً رات ایک بجے داماد آیا اور دروازہ کھولنے کو کہا اور کہا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے لیکن لڑکی کے باپ نے دروازہ نہ کھولا اور کہا صبح آنا اس طرح دونوں کے بیچ میں تکرار ہوگئی اور داماد غصّے اور جنون میں آگیا اور کہا دروازہ نہیں کھول رہے تو اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھو اور ہاتھ اُٹھا کر کہا ایک طلاق اور تھوڑا آگے بڑھ کر کہا دو طلاق اور پھر اسکوٹر پر بیٹھ کر کہا تین طلاق ، کیا طلاق واقع ہوگئی؟
سائل:سعید احمد خان ، لائنز ایریا، کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں جو تفصیل بیان کی ہے اگر وہ درست ہو تو سوال میں ذکر کردہ الفاظ اضافت لفظی سے خالی ہیں کیونکہ الفاظِ طلاق سے طلاق واقع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ طلاق کی اضافت عورت کی طرف ہو۔ چاہے صراحۃً اضافت ہو جیسے کسی شخص نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا بیوی کا نام لے کر کہا مثلاً : ہندہ کو طلاق ، یا عورت سے مخاطب ہو کر کہا تجھے طلاق دی یا عورت کی طرف اشارہ کرکے کہا : اس کو طلاق دی یا تقدیراً اضافت ہو جیسے کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا : مجھے طلاق دے دو شوہر نے کہا : میں نے طلاق دی یا کسی اور نے کہا : اپنی بیوی کو طلاق دے دو یا فلانہ کو طلاق دے دو ، شوہر نے کہا : میں نے طلاق دی یا اضافت نیت میں ہو یعنی معنوی ہو جیسے شوہر نے کہا : میں نے طلاق دی اور پوچھنے پر اس نے اقرار کیا کہ بیوی ہی کو طلاق دی تو ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
اور سوال مذکور الفاظ کے متعلق بھی شوہر سے حلفیہ پوچھا جائے کہ تیرے ایک طلاق ، دو طلاق ، تین طلاق کہنے سے مراد کسے طلاق تھی،اگر بیوی کو طلاق مراد تھی تو تین طلاقیں مغلّظہ واقع ہو جائیں گی۔ اور اکثر عوام اضافت سے واقف نہیں ہوتے جب بھی طلاق کا لفظ بولتے ہیں تو بیوی ہی کو طلاق مراد لیتے ہیں کیونکہ طلاق بیوی ہی کو دی جاتی ہے کسی اور کو نہیں دی جاتی۔ مگر جب شوہر حلفیہ کہہ دے کہ بیوی کو طلاق مراد نہ تھی تو اس کا یقین کرنا ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں نیت کو جاننے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ بولنے والا خود نیت کے بارے میں بتائے۔ خدانخواستہ اگر جھوٹ بولے گا تو یہ معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہوگا عنداللہ وہ گنہگار اور مستحقِ عذاب ہوگا کہ جھوٹ بول کر حرام کو حلال کر رہا ہے۔ شریعت چونکہ ظاہر پر ہے اس لئے اس کا اعتبار کرنا پڑے گا اور حکم ہوگا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔
اور اسی کی مثالیں کُتُبِ فقہ میں بکثرت موجود ہیں ۔
چنانچہ علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی ۵۴۲ ھ اور ان سے علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۱۶۱ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:
سَکرانُ ہَرَ بتْ منہ امرأتُہ فتبِعھا ولم یَظفَر بھا فقال بالفارِسیّۃ بَسہ طلاق ، إن قال عنیتُ امرأتی یقع ، وإن لم یقل شیئأ لا یقع۔ (واللفظ للأوّل) 12
یعنی ،نشہ والے سے اس کی بیوی بھاگی تو وہ اس کے پیچھے لگا اور اس کو پکڑنے میں کامیاب نہ ہو تو فارسی میں کہا : تین طلاق ، اگر اس نے کہا میں نےاپنی بیوی مراد لی تو طلاق واقع ہو جائے، اور اگر کچھ نہ کہا تو طلاق واقع نہ ہوگی۔
اور لکھتے ہیں:
وفی الفَتاوی رجلٌ قال لامرأتہ اگر تَوزَن منّی سہ طلاق مع حذفِ الیاءِ لا یقع إذا قال لم أنو الطّلاق لأنّہ لمّا حَذف فلم یکن مُضِیفاً34
یعنی،اور فتاویٰ میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا : اگر تو بیوی تین طلاق مع حذف یا توطلاق واقع نہ ہوگی جبکہ اس نے کہا میں نے ( بیوی کو ) طلاق کی نیت نہیں کی ، کیونکہ جب حذف کیا تو ( طلاق ) مضاف نہ ہوئی۔
اورامام برہان الدین ابوالمعالی محمود ابن مازہ بخاری حنفی متوفی۶۱۶ھ اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی اور علمائےہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:
سُئل أبُو نصرٍ عَن رجلٍ سَکران قال لامرأتہ: أتُریدِین أن أطلِّقکِ؟ فقالت: نَعم، فقال بالفارسیّۃ: اگر توزن منّی یَک طلاق، ودو طلَاق، سہ طَلاق، قُومی واخرجِی منْ عندِی وھُو یزعُم أنّہ لم یُرِد بہ الطّلاقَ فالقولُ قولہُ۔ (واللفظ للأوّل) 56
یعنی ،شیخ الاسلام فقیہ ابو نصر سے ایک نشہ والے کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی سے کہا :کیا تو چاہتی ہے کہ میں تجھے طلاق دوں ؟ بیوی نے کہا : ہاں ، تو اس نے کہا : اگر تو میری بیوی ہے ایک طلاق ، دو طلاق ، تین طلاق ، اُٹھ اور میرے پاس سے جا۔ اور وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا اس سے طلاق کا ارادہ نہ تھا تو اس کی بات معتبر ہوگی ( یعنی طلاق واقع نہ ہوگی )۔
واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: یوم الثلاثاء،۲/رمضان المبارک،۱۴۲۶ھ۔۲۵/اکتوبر،۲۰۰۵م
رئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)