True Fatawa

بیوی کوسال کےافضل دن طلاق کہنےکاحکم

سوال نمبر:155-F

الإستفتاء: کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ شوہرنےاپنی بیوی سےکہاکہ تجھےسال کےتمام دنوں میں سےافضل دن میں طلاق تودریافت طلب امریہ ہےکہ اس عورت پرکس دن طلاق واقع ہوگی؟

سائل:نعیم احمدشیخ قادری،شہدادپور،سانگھڑ،سندھ


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صورتِ مسئولہ میں اُس پرعرفہ کےدن طلاق واقع ہوگی کیونکہ سال میں سب سےافضل دن عرفہ ہے۔

چنانچہ امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری متوفی۲۶۱ھ اپنی سندکےساتھ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

  مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟۔1

یعنی،اللہ تعالیٰ یوم عرفہ سےزیادہ کسی دن بھی بندوں کودوزخ سےآزادنہیں کرتااوراللہ تعالیٰ اپنےبندوں کےقریب ہوتاہےپھر فرشتوں کےسامنےاپنےبندوں پرفخرکرتےہوئےفرماتاہے:یہ بندےکس ارادےسےآئےہیں۔

اس کےتحت علامہ یحی بن شرف نووی شافعی متوفی۶۷۶ھ لکھتےہیں:

  هذَا الحديثُ ظاهرُ الدّلالة في فضلِ يومِ عرفةَ وهو كذلك، ولو قال رجلٌ امرأتِي طالقٌ في أفضلِ الأيّام فلأصحابِنا وجهانِ: أحدُهما تُطَلَّقُ يومَ الجمعةِ لقوله صلّى الله عليه وسلّم: «خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِیْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَة» کما سبق في صحيحِ مسلمٍ وأصحُّهما يومُ عرفةَ للحديثِ المذكورِ في هذَا الباب ويُتأوّلُ حديثُ يومِ الجمعةِ علَى أنّه أفضلُ أيّام الأُسبوعِ۔2

یعنی،یہ حدیث عرفہ کےدن کی فضیلت پرواضح طورپردلالت کرتی ہےاورایساہی ہے،اگرشوہرکہےکہ سال کےدنوں میں افضل دن میری بیوی کوطلاق۔توہمارےاصحاب(شوافع)کےاس بارےمیں دوقول ہیں:ایک قول یہ ہےکہ جمعہ کےدن طلاق واقع ہوگی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:’’سب سےبہتردن کہ جس میں سورج طلوع ہوتاہے،جمعہ کادن ہے‘‘جیسا کہ’’صحیح مسلم‘‘3میں گزرا۔دونوں اقوال میں اصح قول یہ ہےکہ عرفہ کےدن طلاق واقع ہوگی،اس باب میں حدیثِ مذکورکی وجہ سے۔اورجمعہ کےدن کی فضیلت پر واردحدیث کی یہ تاویل کی جائےگی کہ ہفتہ کےدنوں میں افضل دن جمعہ ہے۔

اورعلامہ عبداللطیف ابن ملک رومی حنفی متوفی۸۰۱ھ اوران کےحوالےسےعلامہ احمدبن محمدمصری حنفی متوفی۱۰۲۱ھ اورعلامہ سیّدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتےہیں:

  و فی الحدیث: دلالةٌ علی فضلِ یومِ عرفةَ علی سائرِ الأیّام حتّی لو قال رجلٌ امرَأتی طالقٌ في أفضلِ الأيّام تطلّق يومَ عرفة. وقيل: تطلّق يومَ الجمعة لقولهِ علیه الصّلوة والسّلام: «خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَة» والأصحّ أنّها تطلّق يومَ عرفة فيُحمل حديثُ يومِ الجمعةِ على أنّه أفضلُ أيّام الأسبوعِ ما لم يكنْ فيها يومُ عرفة توفيقًا بينهما۔(واللفظ لابن ملک) 4567

یعنی،اس حدیث میں تمام دنوں پرعرفہ کےدن کی فضیلت پردلیل ہے،یہاں تک کہ اگرشوہرکہےکہ سال کےدنوں میں افضل دن میری بیوی کوطلاق۔توعرفہ کےدن طلاق واقع ہوگی اورایک قول یہ ہےکہ جمعہ کےدن ہوگی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’سب سےبہتردن کہ جس میں سورج طلوع ہوتاہے،جمعہ کادن ہے۔‘‘اوراصح قول یہ ہےکہ عرفہ کےدن طلاق واقع ہوگی۔اورجمعہ کےدن کی فضیلت پرواردحدیث کواس پرمحمو ل کیاجائےگاکہ ہفتہ کےدنوں میں افضل دن جمعہ ہےجبکہ اُس میں یوم عرفہ نہ ہو،تاکہ احادیث میں تطبیق ہوجائے۔

اورعلامہ علاءالدین علی بن بلبان فارسی متوفی۷۳۹ھ اپنی سندکےساتھ حضرت جابررضی اللہ عنہ سےمروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

  مَا مِنْ يوْمٍ أَفْضَلُ عِنْدَ اللهِ مِنْ يوْمِ عَرَفَةَ۔8

یعنی،اللہ تعالیٰ کےنزدیک کوئی دن عرفہ کےدن سےافضل نہیں ہے۔

علامہ شرف الدین حسین بن محمدطیبی شافعی متوفی۷۴۳ھ اوران کےحوالےسےمُلّاعلی قاری حنفی متوفی۱۰۱۴ھ لکھتےہیں:

  أفضلُ الأيّام قيل عرفةُ، وقيل الجمعةُ هذا إذا أطلِق، وأمّا إذا قيل: أفضَل أيّام السّنَة فهو عرفةُ، وأفضل أيّام الأسبُوع فهو الجمعةُ۔(واللفظ للقاری) 910

یعنی،سب سےافضل دن کےبارےمیں ایک قول یہ ہےکہ عرفہ کادن ہےاورایک قول یہ ہےکہ جمعہ کادن ہے،یہ اُس وقت ہے جب مطلق بولاجائےاورجب کہاجائےکہ سال کےدنوں میں افضل دن کون ساہےتووہ عرفہ کادن ہےاورہفتہ کےایام میں سے افضل دن پوچھاجائےتووہ جمعہ کادن ہے۔

لہٰذامذکورہ صورت میں عرفہ کےدن طلاق واقع ہوگی۔

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: یوم الثلاء،۲۶/شوال المکرم،۱۴۲۶ھ۔۲۹/نوفیمبر،۲۰۰۵م

المفتى محمد عطا الله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ،برقم:۲،۱۳۴۸/۹۸۳،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت
  • 2 المنھاج شرح سحیح مسلم،کتاب الحج،باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ،۵/۹۔۹۹،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۱ھ۔۲۰۰۰م
  • 3 صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ،باب فضل یوم الجمعۃ،برقم:۲،۸۵۴/۵۸۵،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت
  • 4 مبارق الأزھار شرح مشارق الأنوار،الباب الخامس،الفصل الأوّل: فی ما جاء أولہ ما النافیۃ،۲/۱۳۸،مطبوعۃ:دار الجیل،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۱۵ھ۔۱۹۹۵م
  • 5 حاشیۃ الشلبی علی التبیین،کتاب الحج،باب الإحرام،تحت قولہ:ولأن التلبیۃ فی الإحرام إلخ،۲/۲۹۱۔۲۹۲،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م
  • 6 منحۃ الخالق،منحۃ الخالق علی البحر،کتاب الطھارۃ،تحت قولہ:قال ابن أمیر حاج،۱/۱۲۰،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۱۸ھ۔۱۹۹۷م
  • 7 رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطھارۃ،مطلب: یوم عرفۃ أفضل من یوم الجمعۃ،۱/۳۴۱،مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م
  • 8 صحیح ابن حبان،کتاب الحج،باب الوقوف بعرفۃ والمزدلفۃ والدفع منھما،ذکر رجاء العتق من النار لمن شھد عرفات یوم عرفۃ، برقم:۴،۳۸۴۲۔۶/۶۲،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ۱۴۱۷ھ۔۱۹۹۶م
  • 9 الکاشف عن حقائق السنن علی مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،الفصل الأول،۳/۲۰۷،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت، الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۲ھ۔۲۰۰۱م
  • 10 مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،الفصل الأول،۳/۴۰۲،تحت قولہ:إلا فی یوم الجمعۃ،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۲ھ۔۲۰۰۱م