سوال نمبر:
الإستفتاء: کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ سلام کرناسنّت ہےاورجواب دیناواجب ہے۔اگرسلام کرنےوالاایسےشخص کوسلام کرےجوتدریس میں مصروف ہوتوکیااُس پربھی سلام کاجواب دیناواجب ہوگا؟
سائل:مجیب،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:یہ درست ہےکہ سلام کرناسنّت اورجواب دیناواجب ہےمگریہ حکم مطلق نہیں ہےبعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ جن میں جواب دیناواجب نہیں ہےاُن میں سےایک مدرّس بھی ہےجوتدریس میں مصروف ہو۔
چنانچہ فقیہ النفس علامہ حسن بن منصوراُوزجندی حنفی متوفی۵۹۲ھ اوران کےحوالےسےعلامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی۹۷۰ھ لکھتےہیں:
ولو سلّم علی القاضِی أو المدرّس، قالوا: لا یجبُ علیہ الردّ۔1 2
یعنی،اوراگرقاضی یامدرّس کوسلام کیاتوفقہائےکرام نےفرمایاکہ اُس پرجواب دیناواجب نہیں ہے۔
اورعلامہ نجم الدین مختاربن محمدزاہدی حنفی متوفی۶۵۸ھ اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اور علمائےہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:
ولا يُسلّم المُتفقّه على أستاذهِ، ولو فعلَ لا يجبُ ردّ سلامِه۔3 4
یعنی،فقہ سیکھنےوالااپنےاُستادکوسلام نہ کرےاورسلام کیاتواُس پرجواب دیناواجب نہیں۔
اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ لکھتےہیں:
عالمِ دین تعلیم علمِ دین میں مشغول ہے، طالب علم آیا تو سلام نہ کرے اور سلام کیا تو اس پر جواب دینا واجب نہیں۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگرچہ وہ پڑھا نہ رہا ہو سلام کا جواب دینا واجب نہیں، کیونکہ یہ اس کی ملاقات کو نہیں آیا ہے کہ اس کے لیے سلام کرنا مسنون ہو بلکہ پڑھنے کے لیے آیا ہے، جس طرح قاضی کے پاس جو لوگ اجلاس میں جاتے ہیں وہ ملنے کو نہیں جاتے بلکہ اپنے مقدمہ کےلیےجاتےہیں۔5
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: یوم السبت،۲۹/صفر المظفّر،۱۴۴۵ھ۔۱۵/سبتمبر،۲۰۲۳م
المفتى محمد عطا الله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)