True Fatawa

چھ بیٹوں اوردوبیٹیوں میں تقسیمِ ترکہ

سوال نمبر:JIA-655

الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ حبیب خان مرحوم کاانتقال ہوگیاجن کی ملکیت ایک مکان جوتقریباًنولاکھ روپےکاہےاورمرحوم کےورثاءچھ بیٹےمسمّی نصیرخان،نذیرخان،صابرخان،شبیرخان،اصغرخان اوردوبیٹیاں مسمّات بیگم شمیم اورشبانہ خاتون ہیں جب کہ مرحوم کی زوجہ کاانتقال اُن کی زندگی میں ہی ہوگیاتھا۔اورمذکورہ اولادمیں سب شادی شُدہ ہیں سوائےاصغرخان اورشبانہ خاتون کے۔یہ دونوں غیرشادی شدہ ہیں،ان کودوسروں کےبرابرحصہ ملےگایاغیرشادی ہونے کی وجہ سےشادی کاخرچ بھی؟

سائل:محمدغلام،غریب آباد،ملیر،کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صُورتِ مسئولہ میں برتقدیرصدقِ سائل وانحصارِورثاءدرمذکورین بعدِاُمورِثلاثہ متقدمہ علی الاِرث مرحوم کامکمل ترکہ چودہ حصوں پرتقسیم ہوگاجس میں سےہربیٹےکودو،دوحصےاورہربیٹی کوایک،ایک حصہ ملےگاکیونکہ بیٹے کاحصہ بیٹی کی بنسبت دُگناہوتاہے۔

چنانچہ قُرآنِ کریم میں ہے:

  يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ للذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ1
  اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصّہ دو بیٹیوں برابر۔(کنز الإیمان)

اورمرحوم سےپہلےانتقال کرنےوالی زوجہ کومرحوم کےترکہ سےکچھ نہیں ملےگاکیونکہ وارث صرف وہی رشتہ داربنتے ہیں جومُورِث کی وفات کےوقت حیات ہوں۔

چنانچہ علامہ سیّدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ شرائطِ وراثت کےبیان میں لکھتےہیں:

  وجودُ وارِثه عِند مَوتِه حيًّا۔2

یعنی،وراثت کاحقدارہونےکیلئےوارث کامُورِث کی وفات کےوقت زندہ ہوناشرط ہے۔

یادرہےکہ تقسیمِ ترکہ میں شادی شُدہ اورغیرشادی شُدہ کی تفریق نہیں ہےہاں دیگربہن بھائی اگرباہمی رضامندی سےان دوکوجوغیرشادی شُدہ ہیں مشترکہ ترکہ سےکچھ الگ سےشادی میں تعاون کےلئےدیناچاہیں تودےسکتےہیں اوراس تعاون پراُنہیں ثواب ہوگا۔

وصورۃ المسئلۃ ھکذا :۱۴
المیت ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حبیب خان
بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
۲۲۲۲۲۲۱۱
  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: یوم الإثنین،۲۳/رجب المرجبٰ،۱۴۲۶ھ۔۲۹/أغسطس،۲۰۰۵م

المفتى محمد عطا الله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 النسآء:۴/۱۱
  • 2 رد المحتار،کتاب الفرائض،تحت قولہ:علم بأصول إلخ،۱۰/۵۲۵،مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م