سوال نمبر:JIA-653
الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے والدمحمدابراہیم کاانتقال ہوا ان کےپیچھےان کی بیوہ یعنی ہماری والدہ مسمّات حوابائی اوردوبیٹےمسمّی محمداقبال اورمحمدیوسف اورپانچ بیٹیاں مسمّات زبیدہ،کلثوم،یاسمین ،عابدہ اور حمیدہ زندہ تھے۔پھرحوابائی کاانتقال ہواجن کےپیچھےمرحومہ کےمذکورہ بالادوبیٹےاورپانچ بیٹیاں حیات ہیں۔جب مرحوم کاوصال ہوا اس وقت ہماری دوبہنیں کلثوم اورعابدہ اورایک بھائی محمداقبال غیرشادی شدہ تھے۔والدصاحب کوئی رقم چھوڑکرنہ گئےتھےکہ جس سےان کی شادی کابندوبست کیاجاتاوالدصاحب کی جائیدادصرف دوکان،فلیٹ اوربلڈنگ پرمشتمل تھی۔اس لئےہم تمام بہن بھائیوں نےآپس میں طےکیاتھاکہ ان تینوں کی شادی کسی طرح قرض وغیرہ لےکربھی کر دی جائےپھرجب جائیدادکوبیچاجائےتو اس سےوہ رقم مشترکہ طورپرنکال لی جائےاوروہ خرچ تقریباًچھ لاکھ روپےتھااب سوال یہ ہےکہ والدمرحوم کی مذکورہ جائیدادکوبیچا جائےتواس سےوہ رقم مشترکہ طورپرنکال لی جائےاوروہ خرچ تقریباًچھ لاکھ روپےتھااب سوال یہ ہےکہ والدمرحوم کی مذکورہ جائیدادوارثوں میں کس طرح تقسیم ہوگی اورشادیوں کاقرض کس طرح اداہوگا؟
سائل:محمدیوسف،کھڈہ مارکیٹ،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں برتقدیرصدقِ سائل وانحصارِورثاءدرمذکورین بعدِاُمورِثلاثہ متقدمہ علی الارث مرحوم کامکمل ترکہ اُن کی اولادکےدرمیان نوحصوں پرتقسیم ہوگاجس میں سےہربیٹےکودو،دوحصےاورہربیٹی کوایک،ایک حصہ ملےگاکیونکہ بیٹےکاحصہ بیٹی کی بنسبت دُگناہوتاہے۔
چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ للذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ1
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصّہ دو بیٹیوں برابر۔(کنز الإیمان)
اورتمام ورثاءکی باہمی رضاسےبھائی بہنوں کی شادی میں ہونےوالاخرچہ کُل ترکہ سےمشترکہ طورپرمنہاکرکےجوباقی بچے وہ مندرجہ بالاطریقےپرورثاءمیں تقسیم ہوگا۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: یوم الإثنین،۲۳/جمادی الأولیٰ،۱۴۲۶ھ۔۲۹/جولائی،۲۰۰۵م
المفتى محمد عطا الله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)