سوال نمبر:JIA-704
الإستفتاء: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ بعض سُنّی بریلوی علماء’’بہارشریعت‘‘کےمسائل فقہ کو معتبرنہیں مانتےاورکیاواقعی’’بہارشریعت‘‘کےبعض مسائل قرآن وحدیث اورفقہ حنفی کےمتصادم ہیں؟جبکہ ہمارےبعض سُنّی بریلوی ائمہ کی اکثریت اس کتاب پرعمل کرتی ہے۔
’’بہارشریعت‘‘حصہ پانزدہم پرمذکورہ مسئلہ کوتفصیل کےساتھ بیان کیاگیاہےبطورنمونہ اس سےمندرجہ ذیل چندسطور ملاحظہ فرمائیں اورتفصیلی جواب سےنوازیں۔
مسئلہ: پورا حلقوم ذبح کی جگہ ہے یعنی اس کے اعلی،اوسط، اسفل جس جگہ میں ذبح کیا جائے جانور حلال ہوگا۔
اورلکھتےہیں:ذبح فوق العقدہ ہو جائے اس میں علماء کو اختلاف ہے کہ جانور حلال ہوگا یا نہیں۔ اس باب میں قولِ فیصل یہ ہے کہ ذبح فوق العقدہ میں اگر تین رگیں کٹ جائیں توجانور حلال ہے ورنہ نہیں۔
سائل:محمدعرفان سلطانی،خادم جامع مسجدقبا نانگی،میانوالی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:’’بہارشریعت‘‘فقہ حنفی کےمسائل کامجموعہ ہےاوراس کےمسائل قرآن وحدیث اورفقہ حنفی کے متصادم نہیں ہیں۔اس میں مذکورکوئی مسئلہ اگرفقہ حنفی کےخلاف ہوتووہ بیان کیاجائےباقی ایسےہی کہہ دیناکہ اس کےمسائل فقہ حنفی سےمتصادم ہیں ہرگزہرگزمعتبرنہیں ہے۔
صدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ نےاس کتاب میں جوابحاث بیان کیں وہ تقریباًحوالہ جات کےساتھ ہیں آپ نےاس کتاب کےموادکوقرآنِ کریم سےاخذکیاہےتواس سورت کانام ذکرکیاجس کی یہ آیت ہےاورکتبِ احادیث سے اخذکیاہےتوکتاب کاحوالہ دیاہےاورکتبِ فقہ سےاخذکیاہےتواس کتاب کاذکرکیاہےجس سےآپ نےاس مسئلہ کونقل کیااور بعض مسائل میں جواکثرکتبِ فقہ میں موجودہیں تووہاں کتبِ عامہ لکھ دیاہے۔لکھنےمیں اگرسہواہواہویاکتابت کی غلطی نظرآئےتو اس کی نشاندہی کرنی چاہیےنہ کہ سرےسےفقہ حنفی کےمسائل کےاس عظیم مجموعہ کی مخالفت اورانکار۔
اورجومسئلہ آپ نےسوال میں ذکرکیاوہ صرف’’بہارشریعت‘‘میں نہیں دیگربڑی کُتبِ فقہ میں بھی موجودہے۔
چنانچہ امام محمدبن حسن شیبانی حنفی متوفی۱۸۹ھ اوراُن سےامام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ھ اوراُن سےعلامہ سیّدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ نقل کرتےہوئےلکھتےہیں:
لَا بأسَ بالذّبح فِي الحلقِ كلّهِ وسطِه وأعلاهُ وأسفلهِ، والأصلُ فيهِ قولهُ عليهِ الصّلاةُ والسّلامُ «الذَّكَاةُ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَاللَّحْيَيْنِ» ، ولأنّه مجمعُ المجرَى والعروقِ فيحصلُ بالفعلِ فيهِ إنهارُ الدّم عَلى أبلغِ الوجوهِ فكانَ حكمُ الكلّ سواءً۔ (واللفظ للمرغینانی) 123
یعنی،پورےحلق میں ذبح میں کوئی حرج نہیں وہ اس کےدرمیان میں ہو،اوپروالےحصہ میں ہویانیچےوالےحصہ میں ہو،اوراس میں اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:ذبح حلق اورسینہ کےدرمیان ہے۔اس کی عقلی دلیل یہ ہےکہ یہ کھانےپینےوالی نالیوں اوررگوں کےجمع ہونےکی جگہ ہےتواس میں ذبح کافعل موثرطریقہ سےحاصل ہوتاہےپس اوپرسےنیچےتک تمام حلقوم (گلا)اس معنی میں برابرہے۔
اورسوال میں مذکور دوسرےمسئلہ میں فقہائےکرام کااختلاف ہےجس کی طرف خودعلامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے بھی اشارہ فرمایاہےاورپھرخودہی اس باب میں علامہ شامی حنفی سےمُفتٰی بہ قول بھی نقل کیاہےجن کی عبارت یہ ہے:
إن كانَ بالذّبح فوقَ العُقدةِ حصلَ قطعُ ثلاثةٍ منَ العروقِ. فالحقّ مَا قالهُ شرّاح الهدايةِ تبعًا للرُّستُغَفنيِّ، وإلّا فَالحقّ خلافهُ، إذ لَم يوجدْ شرطُ الحلّ باتفاقِ أهلِ المذهبِ۔4
یعنی،اگرعقدہ(گلےکی ابھری ہوئی ہڈی) کےاوپرسےذبح کرنےکی صورت میں رگوں میں سےتین کاکٹناحاصل ہوجائےتوحق وہ ہےجو’’ہدایہ‘‘کےشارحین(انظر العنایۃ5و الکفایۃ6 )نےامام رُستُغفنی(آپ ابوالحسن علی بن سعید ہیں رُستُغفَن سےتعلق رکھتےتھےجوکہ سمرقندکاایک قصبہ ہے)78کی اتباع میں کہاہے کہ مذبوحہ حلال ہوگاورنہ حق اس کےخلاف ہےکیونکہ اہل مذہب کےاتفاق کے مطابق حلّت کی شرط نہیں پائی گئی۔
لہٰذااس کےخلاف اگرکسی نےلکھاہوتوہمیں اس سےآگاہ کیاجائےاورممکن ہوتواس کی نقل ارسال کی جائے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:یوم الجمعۃ،۲۹/شوال المکرم،۱۴۲۶ھ،۲/دسمبر،۲۰۰۵م
المفتى محمد عطا الله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)