سوال نمبر: JIA-552
الإستفتاء:کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ زیدنے اپنی بیوی کودو طلاقیں دیں جس پراُس کےپاس گواہ ایک مرداوردوعورتیں ہیں لیکن اُس کی ساس یہ دعویٰ کرتی ہےکہ زیدنےتین طلاقیں دی ہیں اورکہتی ہےکہ میرےپاس میرےدوبیٹےگواہ موجودہیں تواس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوں گی اورکس کےگواہوں کی گواہی قابلِ قبول ہوگی؟جبکہ دونوں گواہ پیش کرنےکادعویٰ کرتےہیں۔
سائل:معرفت مولاناغلام محمدجت نعیمی،ملیر،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:
صُورتِ مسئولہ میں دوطلاقیں واقع ہوں گی کیونکہ شوہرتین طلاق کاانکارکرتاہےاورساس تین طلاق کادعویٰ کرتی ہےجس پراُس کےپاس دوبیٹےگواہ ہیں اوربیٹوں کی گواہی والدین کےحق میں قبول نہیں کی جاتی،لہٰذاتین طلاقوں کامحض دعویٰ ہےجس پرشرعی دلیل نہیں توساس کےمطالبہ پرشوہرکاقول قسم کےساتھ معتبرماناجائےگاکہ اُس نےصرف دوطلاقیں دی ہیں۔
چنانچہ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغیانی حنفی متوفی۵۹۳ھ پھرعلامہ جمال الدین احمدبن محمودحلبی حنفی متوفی۵۹۳ھ اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اورعلمائےہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:
لَا تقبلُ شهادةُ الولدِ لأبویهِ۔ (واللفظ للأوّلین)12 3
یعنی،والدین کےحق میں اولادکی گواہی قبول نہیں کی جائےگی۔
اور شریعت کاقانون یہ ہےکہ مدعی پرشرعی گواہ لازم ہیں اوراگرگواہ نہ لاسکےتومنکر(مدعی علیہ)پرقسم ہے۔
چنانچہ امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی متوفی۲۷۹ھ اپنی سندکےساتھ حضرت عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ کےپرداداسے روایت کرتےہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: «البَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ»۔4
یعنی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےخطبہ میں ارشادفرمایا:مدعی پر گواہ اورمدعی علیہ پرقسم لازم ہے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: یوم الجمعۃ،۲۰/شعبان المعظم،۱۴۲۴ھ،۱۷/اکتوبر،۲۰۰۳م
المفتى محمد عطا الله نعيميرئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)