سوال نمبر:
الإستفتاء: کیافرماتےہیں عُلمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس بارےمیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کافرمان ہے:تم میں سےجب کوئی اذان سنےاوربرتن اُس کے ہاتھ میں ہوتوجب تک وہ اُس سے اپنی ضرورت پوری نہ کرلے،اُسےنہ رکھے،توکیا اس حدیث شریف کی رُوسےسحری کرنےوالےکواذانِ فجرکےدوران کھانےپینےکی اجازت ہے؟اگرنہیں توپھراس حدیث کا مطلب واضح فرماکرعنداللہ ماجورہوں؟
سائل:محمد الیاس کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں جانناچاہیےکہ سحری کی اجازت صبح صادق تک ہے۔
چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ1
اورکھاؤ اور پیویہاں تک کہ تمہارے لیے ظاہر ہوجائےسفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے پوپھٹ کر پھر رات آنے تک روزےپورے کرو(کنز الإیمان)
اس آیت کےتحت امام ابوجعفرمحمدبن جریرطبری متوفی۳۱۰ھ لکھتےہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ} (البقرة: 187) «يَعنِي اللّيلَ مِن النّھارِ. فَأحلّ لَكمُ المُجامعۃَ، وَالأكلَ، وَالشّربَ حَتّی يَتبيّن لَكمُ الصّبحُ، فإذا تَبيّن الصّبحُ حرُم علَيھمُ المجَامعۃُ، والْأكلُ، وَالشّربُ حَتّی يُتمّوا الصّيامَ إِلی اللّيلِ»۔2
یعنی،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسےاس فرمان’’اورکھاؤ اور پیویہاں تک کہ تمہارے لئے فجرسےسفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورےسےممتاز ہوجائے‘‘کی تفسیرمیں روایت ہےکہ سفیدی کاڈوراسیاہی کےڈورےسےممتازہوجائےاس سےمرادیہ ہےکہ رات دن سےجداہوجائے،پس تمہارےلئےہمبستری اورکھاناپینااُس وقت تک حلال ہےجب تک تمہارےلئےصبح نہ ظاہرہوجائےپس جب صبح ظاہرہوجائےتوروزہ داروں پرہمبستری،اورکھاناپیناحرام ہےیہاں تک کہ وہ روزےکورات تک پوراکریں۔
پس جب صبح ظاہرہوجائےتوروزہ داروں پرہمبستری،اورکھاناپیناحرام ہےیہاں تک کہ وہ روزےکورات تک پوراکریں۔
اورصحیح احادیث سےبھی یہ بات واضح ہےکہ سحری کی اجازت صبح صادق تک ہے۔چنانچہ امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی۲۶۱ھ حدیث لکھتےہیں:
عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللہ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: لَا يَغُرَّنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ، وَلَا بَيَاضُ الْأُفُقِ الْمُسْتَطِيلُ ھَکَذَا، حَتَّی يَسْتَطِيرَ ھَکَذَا وَحَكَاہُ حَمَّادٌ بِيَدَيْہِ، قَالَ: يَعْنِي مُعْتَرِضًا۔ 3
یعنی،حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنےفرمایا:تمہیں تمہاری سحری سے بلال کی اذان دھوکےمیں نہ ڈالےاورنہ افق کی اس طرح لمبی سفیدی یہاں تک کہ اس طرح پھیل جائےاورحمادنےاس کواپنے ہاتھوں کےساتھ بیان کیا،فرمایا:یعنی چوڑائی میں۔
اور امام مسلم بن حجاج قشیری ایک اورحدیث نقل فرماتےہیں:
عَنْ سَوَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَهُوَ يَخْطُبُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «لَا يَغُرَّنَّكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ، وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَبْدُوَ الْفَجْرُ ( أَوْ قَالَ ) حَتَّى يَنْفَجِرَ الْفَجْرُ»۔4
یعنی،حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نےفرمایا:نہ تمہیں بلال کی اذان دھوکےمیں ڈالےاورنہ یہ سفیدی یہاں تک کہ فجرظاہرہوجائےیافرمایا:یہاں تک کہ فجرپھوٹ پڑے۔
اور’’روزے‘‘کی تعریف بیان کرتےہوئےعلّامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمدنسفی حنفی متوفی۷۱۰ھ لکھتےہیں:
هُو تَركُ الْأكلِ وَالشّربِ وَالجِماعِ مِن الصّبحِ إلَى الغُروبِ بِنيّة مِن أهلِه۔5
یعنی،صُبح صادق سےغُروبِ آفتاب تک اس کےاہل سےبہ نیت عبادت کھانےپینےاورجماع سےرُکےرہنےکو’’روزہ‘‘کہتےہے۔
اورسوال میں ذکرکردہ حدیث میں جس اذان کاذکرہےاس سےمغرب کی اذان بھی مرادہوسکتی ہے
چنانچہ اس حدیث کی شرح میں شیخ عبدالحق مُحدِّث دہلوی حنفی متوفی۱۰۵۲ھ لکھتےہیں:
يحتمل أن يرادَ بالنّداءِ ندَاء المغرِب،فیکُون تأکیداً لتعجیلِ الإفطارِ،وإنْ کانَ ترک الأکل والشّرب عِند الأذانِ مسنوناً۔۔۔قید کونِ الإناءِ فی یدِہ اتِّفاقی۔6
اورعلّامہ عبدالرؤف مناوی شافعی متوفی۱۰۳۱ھ لکھتےہیں:
قِيل المرَاد أذَان المغرِب فإذَا سمعَه الصائمُ والإنَاء فِي يدِه فَلا يضَعه بَل يُفطر فوراً محَافظة عَلى تعجيلِ الفطرِ۔7
یعنی،ایک قول یہ ہےکہ نداءسےمرادمغرب کی اذان ہےپس روزےدارجب اسےسنےاوربرتن اُس کےہاتھ میں ہوتووہ اُسےنہ رکھےبلکہ وہ جلدی افطارکرنےپرمحافظت کرتےہوئےفوری طورپرافطارکرے۔
اورایک قول کےمطابق اس سےحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رات میں دی جانےوالی اذان مرادہے۔
چنانچہ امام ابو بکراحمدبن حسین بیہقی موفی۴۵۸ھ لکھتےہیں:
قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ خَبَرًا عَنِ النِّدَاءِ الْأَوَّلِ لِيَكُونَ مُوَافِقًا لِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَةَ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أنبأ جَرِيرٌ، وَالْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّمَا يُنَادِي لِيُوقِظَ نَائِمَكُمْ، وَيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ۔ ] 8
یعنی،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کافرمان :’’جب تم میں سےکوئی نداءسنےاوربرتن اُس کےہاتھ میں ہو‘‘اس میں یہ احتمال ہے کہ پہلی اذان کےمتعلق بات کی گئی ہو،اوریہ احتمال اس لئےبیان کیاہےتاکہ یہ اُس روایت کےموافق ہوجائےجوحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نےنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سےروایت کیاہےکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نےارشادفرمایا:’’تم میںسےکسی کوبلال کی اذان اُس کی سحری سےنہ روکےکیونکہ وہ اس لئےاذان دیتےہیں کہ تم میں سےسونےوالابیدارہوجائےاور عبادت کرنےوالاواپس آجائے‘‘۔
اورشیخ عبدالحق مُحدِّث دہلوی حنفی متوفی۱۰۵۲ھ لکھتےہیں:
يحتمل أن يرادَ بالنّداءِ۔۔۔ندَاء الصُّبح،فقِیل: المرَاد ندَاءبلال فإنّہ کانَ ینَادِی باللّیلِ۔9
یعنی،یہاں احتمال ہےکہ اس سےمرادصبح کی اذان ہو،پس کہاگیاکہ اس سےمرادحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان ہےکیونکہ وہ رات میں اذان دےدیاکرتےتھے۔
اس معنی کی تائیدمیں امام بخاری کی ذکرکردہ یہ حدیث شریف ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ بِلاَلًا يُنَادِي بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ»۔ 10
یعنی،حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنےفرمایا:بےشک بلال رات میں اذان دیتےہیں توتم کھاؤاورپیو،جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دیں۔
اوراس معنی کی تائیدامام عبدالرزاق کی ذکرکردہ روایت سےبھی ہوتی ہے:
عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الرَّجُلِ يَسْمَعُ الْأَذَانَ، وَعَلَيْهِ لَيْلٌ ؟ قَالَ:فَلْيَأْكُلْ۔ ]11
یعنی،حضرت حیّان بن عمیرسےروایت ہےکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسےایک ایسےشخص کےبارےمیں سوال کیاگیا کہ وہ رات میں اذان سنتاہےتوآپ نےجواب میں ارشادفرمایاکہ اُسےکھاناکھاتےرہناچاہیے۔
اورعلّامہ خطابی متوفی۳۸۸ھ سوال میں ذکرکی گئی حدیث کےتحت لکھتےہیں:
قلتُ هذَا عَلى قولِه إنّ بلالًا يؤذِن بلَيلٍ فَكلُوا واشربُوا حتّى يؤذنَ ابْن أمِّ مكتُومٍ۔ 12
یعنی،میں کہتاہوں :یہ روایتآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کےاس فرمان کےمطابق ہےکہ بلال رات میں اذان دیتےہیں،پس تم کھاؤپیوجب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دیں۔
اوریہ بھی ممکن ہےکہ حدیث شریف میں واردلفظِ نداءسےمرادنمازِمغرب کی اقامت ہوکہ جب کسی کاروزہ ہو،اورنمازِ مغرب کی اقامت اس حال میں ہوجائےکہ اُس کےسامنےکھاناموجودہو،تووہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔
اس معنی کی تائیداس حدیث شریف سےہوتی ہےجسےامام ابن حبان نےذکرکیاہے:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَأَحَدُكُمْ صَائِمٌ، فَلْيَبْدَأْ بِالْعَشَاءِ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، وَلَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ»۔]13
یعنی،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہےآپ نےکہاکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نےفرمایا:جب نمازقائم کی جائےاورتم میں سےکسی کاروزہ ہوتواُسےچاہیےکہ نمازِمغرب سےقبل کھاناکھالےاوراپنےرات کےکھانےسےجلدی نہ کرو۔
یہی وجہ ہےکہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماجس دن روزےسےہوتےاوررات کاکھاناآجاتاتوآپ پہلےکھانا تناول فرماتےاورپھرنمازادافرماتے۔
چنانچہ امام ابن حبان کی روایت کردہ حدیث شریف میں ہے:
كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَتَبَيَّنَ لَهُ اللَّيْلُ فَكَانَ أَحْيَانًا يُقَدِّمُ عَشَاءَهُ وَهُوَ صَائِمٌ وَالْمُؤَذِّنُ يُؤَذِّنُ ثُمَّ يُقِيمُ وَهُوَ يَسْمَعُ فَلَا يَتْرُكُ عَشَاءَهُ وَلَا يُعَجِّلُ حَتَّى يَقْضِيَ عَشَاءَهُ ،ثُمَّ يَخْرُجَ فَيُصَلِّيَ وَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ إذَا قُدِّمَ إلَيْكُمْ۔14
یعنی،جب سورج غُروب ہوجاتااورحضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماکےلئےرات واضح ہوجاتی توبعض اوقات آپ کےسامنےرات کاکھانالایاجاتااورآپ روزےسےہوتےاورمؤذن اذان کہتاپھراقامت کہتااورآپ سن رہےہوتےتھےلیکن اپنارات کاکھانا ترک نہ فرماتےاورجلدی نہ کرتےجب تک رات کےکھانےکومکمل نہ کرتے،پھرآپ باہرتشریف لےجاکرنمازکی ادائیگی فرماتےاور فرماتےکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نےفرمایا:جب تمہارےسامنےرات کاکھانالایاجائےتواُس سےجلدی نہ کرو۔
لہٰذاقرآن وحدیث اورفقہ کی رُوسےیہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ سحری کاآخری وقت صبح صادق تک ہے، پس اس کےبعدروزہ دارکےلئےغُروبِ آفتاب تک کھاناپیناحرام ہےاوریہ بھی معلوم ہواکہ مذکورہ حدیث میں واردلفظِ نداءاس بات کااحتمال رکھتاہےکہ اس سےمرادمغرب کی اذان ہو،اس صُورت میں جلدروزہ افطارکرنے کی تاکیدہے،اگرچہ برتن اُس کے ہاتھ میں نہ ہو،کیونکہ حدیث شریف میں برتن ہونےکی قیداتفاقی ہے،جبکہ ایک قول کےمطابق اس سےمرادحضرت بلالرضی اللہ تعالیٰ عنہکی رات میں دی جانےوالی اذان ہے،اس صُورت میں مطلب یہ ہوگاکہ بلال کی اذان(جوکہ صبح صادق سےپہلےہوتی تھی) کےدوران تم سحری کھارہےہوتواُسےبندنہ کروبلکہ کھاتےپیتےرہوجب تک ابن ام مکتوم فجرکی اذان نہ دیں،پس اب بھی اگرکوئی صبح صادق سےقبل نمازِتہجدوغیرہ کےلئےاذان دیتاہےاورسحری کرنےوالےکومعلوم ہےکہ ابھی سحری کاوقت باقی ہے،تووہ صبح صادق ہونےتک کھانےپینےکوجاری رکھ سکتاہے،اوریہ بھی ممکن ہےکہ اس سےمرادنمازِمغرب کی اقامت ہوکہ جب کسی کا روزہ ہو،اورنمازِمغرب کی اقامت اس حال میں ہوجائےکہ اُس کےسامنےکھاناموجودہو،تووہ اپنی ضرورت پوری کرلے،بہرحال اس کےبارےمیں مختلف اقوال ہیں لیکن اس حدیث سےیہ نتیجہ اخذکرنادُرست نہیں کہ اذانِ فجرکےدوران سحری کی اجازت ہے، اورجویہ سمجھےیااس کی تعلیم دےوہ سخت غلطی پرہے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:اتوار،۱۲رمضان۱۴۴۲ھ۔۲۵،اپریل۲۰۲۱م
المفتى محمد عطا الله نعيمي
رئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)