سوال نمبر:JIA-508
الإستفتاء:کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کاانتقال ہوا،اُس کےورثاءمیں چارشادی شدہ بیٹے اوردوشادی شدہ بیٹیاں ہیں جبکہ اُس کاایک بیٹااُس کی زندگی ہی میں فوت ہوگیاتھاجس کےدوبیٹےاوردوبیٹیاں حیات ہیں، لہٰذامرحوم کی جائیدادمیں سےہرایک کوکتناکتناحصہ ملےگا؟
سائل:محمداشرف برنس روڈ،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں برتقدیرصدق سائل وانحصارِورثاءدرمذکورین بعداُمورِثلاثہ متقدمہ علی الاِرث بحسبِ شرائطِ فرائض مرحوم کامکمل ترکہ دس حصوں پرتقسیم ہوگاجس میں سےہرایک بیٹےکودو،دوحصےاورہرایک بیٹی کو ایک، ایک حصہ ملےگاکیونکہ بیٹےکاحصہ بیٹی کی بنسبت دُگناہوتاہے۔
چنانچہ قُرآنِ کریم میں ہے:
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ1
اللہ تمہیں حکم دیتا ہےتمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر(کنز الإیمان)
اورپوتےپوتیوں کوکچھ نہیں ملےگاکیونکہ مرحوم کےبیٹےموجودہیں۔چنانچہ علامہ شمس الدین ابوبکرمحمدسرخسی حنفی متوفی ۴۸۳ھ اوران سےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اورعلمائےہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:
إِن اجتمعَ أولادُ الصّلبِ وأولادُ الابنِ فإن كانَ فِي أولادِ الصّلبِ ذكرٌ فلَا شَيء لأولادِ الابنِ ذُكورًا كَانُوا، أو إناثًا أو مُختلطينَ۔ 23
یعنی،اگرحقیقی اولاداوربیٹےکی اولادجمع ہوں تواگرحقیقی اولادمیں کوئی لڑکاہوتواُس کی موجودگی میں بیٹےکی اولادمیں سےکسی کوکچھ نہیں ملےگاخواہ بیٹےکی اولادمذکرہوں یامؤنث ہوں یادونوں ہوں۔
| وصورۃ المسئلۃ ھکذا :۱۰ | |||||||||
| المیت ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ | |||||||||
|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
| بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | پوتا | پوتا | پوتی | پوتی |
| ۲ | ۲ | ۲ | ۲ | ۱ | ۱ | م | م | م | م |
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:یوم الجمعۃ،۲۰/شعبان المعظم،۱۴۲۴ھ۔۱۷/اکتوبر،۲۰۰۳م
المفتى محمد عطا الله نعيمي
رئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)