True Fatawa

روزےمیں کھانےکےذرّات حلق سےاترنےکاحکم

الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ کھانے کےوقت دانتوں میں کھانےوغیرہ کےذرات رہ جاتےہیں جب تک دانتوں کی صحیح طورپرصفائی نہ کی جائےوہ نکلتےنہیں اگرروزہ کی حالت میں حلق سےنیچےاترجائیں توروزہ کاکیاحکم ہوگا؟

سائل:محمدآصف مدنی،اولڈٹاؤن،کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صورتِ مسئولہ میں جبکہ حلق سےنیچےاترنےوالےذرّات چنےکےبرابریازیادہ ہوں توروزہ ٹوٹ جائےگااوراگراس سےکم ہوں توروزہ نہیں ٹوٹےگا۔

چنانچہ علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغیانی حنفی متوفی۵۹۳ھ لکھتےہیں

  و أكلَ لحمًا بينَ أسنانِه فإن كانَ قليلًا لَم يُفطِر وإن كانَ كثيرًا يُفطِر وقَال زُفر. يُفطِر فِي الوَجهينِ لأنّ الفمَ لهُ حكمُ الظّاهرِ حتّى لَا يفْسدَ صومُه بالمَضمضةِ. ولنَا أنّ القليلَ تابعٌ لأسنانِه بمنزلةِ ريقِه بخلافِ الكَثيرِ لأنّه لَا يبقَى فيمَا بينَ الأسنانِ، والفَاصلُ مقدارُ الحِمّصة ومَا دُونهَا قَليْل۔1

یعنی،اگرروزےمیں دانتوں کےمابین لگاہواگوشت کھالیااوروہ تھوڑاتھاتوروزہ فاسدنہ ہوگااوراگرزیادہ تھاتوروزہ ٹوٹ جائےگا،امام زفرعلیہ الرحمہ فرماتےہیں کہ دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائےگاکیونکہ منہ کوظاہری بدن کاحکم حاصل ہےاسی لئےکلی کرنے سےروزہ فاسدنہیں ہوتا۔ہماری دلیل یہ ہےکہ تھوڑااُس کےدانتوں کےتابع ہوکراُس کےتھوک کےدرجےمیں ہے،برخلاف زیادہ کےکیونکہ زیادہ دانتوں کےدرمیان باقی نہیں رہتااورتھوڑےاورزیادہ کےدرمیان حدفاصل چنےکی مقدارہےاورجواِس سے کم ہووہ تھوڑاہے۔

اورامام ابوالبرکات عبداللہ بن احمدنسفی حنفی متوفی۷۱۰ھ اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اور علمائےہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:

  إنْ أكلَ مَا بينَ أسنانِه لَم يُفسِد إنْ كانَ قليلًا وإنْ كانَ كثيرًا يُفسِد، والحِمّصةُ ومَا فوقهَا كثيرٌ، ومَا دُونَها قليلٌ۔(واللفظ للھندیۃ)23

یعنی،دانتوں کےدرمیان جوکچھ رہ گیااگروہ تھوڑاہےتواُس کےکھانےسےروزہ فاسدنہیں ہوتااوراوراگرزیادہ ہےتوفاسدہوجاتا ہے اورچنےکےبرابریااس سےزیادہ ہوتوبہت ہےاوراگرکم ہوتوتھوڑاہے۔

اورعلامہ محمدبن عبداللہ تمرتاشی حنفی متوفی۱۰۰۴ھ اورعلامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوفی۱۰۸۸ھ لکھتےہیں

  ابتلعَ مَا بينَ أسنانِه وهُو دونَ الحِمّصة) لأنّه تبعٌ لريقِه، ولَو قدرهَا أفطرَ۔ 4

یعنی،دانتوں کےدرمیان جوکچھ رہ گیااوروہ چنےسےکم ہےتواُس کےکھانےسےروزہ نہیں ٹوٹےگاکیونکہ یہ تھوک کےتابع ہےاور اگرچنےکےبرابرہوتوروزہ ٹوٹ جائےگا۔

اسی طرح علامہ عبدالحمیدحنفی متوفی۱۲۲۰ھ نےاپنےفتاویٰ میں نقل فرمایاہے5

اس کےتحت علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی۹۷۰ھ کےحوالےسےعلامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتےہیں

  قَولهُ: لِأنّه تَبعٌ لرِيقهِ) لأنّه قليلٌ لَا يمكنُ الاحترازُ عنهُ فجُعل بمَنزلةِ الرّيقِ۔ 67

یعنی،کیونکہ چنےکی مقدارسےکم ہوتواس سےبچناممکن نہیں ہےلہٰذااسےتھوک کےدرجےمیں رکھاگیاہے۔

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: یوم الأربعاء،۲۸/رمضان المبارک،۱۴۲۳ھ۔۴/دسمبر،۲۰۰۲م

المفتى محمد عطا ءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 بدایۃ المبتدی وشرحہ الھدایۃ،کتاب الصوم،باب ما یوجب القضاء والکفّارۃ،۱/۱۴۸۔۱۴۹،مطبوعۃ:دار القلم،بیروت
  • 2 الکافی للنسفی،کتاب الصوم،باب ما یوجب القضاء والکفارۃ،۱/۲۰۳/ب،مخطوط مصوّر
  • 3 الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصوم،الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد،۱/۲۰۲،مطبوعۃ:دار المعرفۃ، بیروت،الطبعۃ الثالثۃ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳م
  • 4 تنویر الأبصار وشرحہ الدر المختار،کتاب الصوم،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ،ص۱۴۵،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۳ھ۔۲۰۰۲م
  • 5 الفتاوی الإقناعیّۃ،کتاب الصوم،فصل فیما یفسد الصوم وما لا یفسدہ،۱/۲۵۳،مطبوعۃ:مکتبۂ عمریّہ،کوئٹہ
  • 6 البحر الرائق، کتاب الصوم،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ،تحت قولہ:أو أکل ما بین أسنانہ،۲/۴۷۸،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت، الطبعۃ الأولیٰ۱۴۱۸ھ۔۱۹۹۷م
  • 7 رد المحتار،کتاب الصوم،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ،مطلب:یکرہ السھر إذا خاف فوت الصبح، ۳/۴۲۲،مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م