سوال نمبر: JIA-146
الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ سودی حساب کتاب لکھناکیساہے؟
سائل:محمدخرم قادری،رنچھوڑلائن،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں سودی حساب کتاب لکھناحرام ہےکہ حدیث شریف میں ایسےشخص پرلعنت فرمائی گئی ہے۔چنانچہ امام ابوالحسین مسلم بن حجاج قشیری متوفی۲۶۱ھ اپنی سندکےساتھ حضرت جابررضی اللہ عنہ سےروایت کرتےہیں:
لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ۔1
یعنی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسودکھانےوالے،سودکھلانےوالے،سودلکھنےوالےاورسودکی گواہی دینےوالوں پرلعنت فرمائی ہےاورفرمایاکہ یہ سب گناہ میں برابرہیں۔
اِس حدیث شریف کےتحت علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ۶۷۷ھ لکھتے ہیں:
هذَا تَصرِيح بتَحريمِ كتابةِ المُبايعةِ بينَ المترابيَينِ والشّهادةِ عليهِما وَفِيهِ تَحريمُ الإعانةِ عَلى البَاطلِ۔2
یعنی،اِس حدیث میں سودی معاملہ کرنےوالوں کےمعاملےکولکھنےاوران دونوں پرگواہ بننےکےحرام ہونےکی تصریح ہےاوراس میں باطل پرمددکرنےکےحرام ہونےکابھی ثبوت ہے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:یوم السبت،۲/شعبان،۱۴۲۲ھ-۲۰/اکتوبر،۲۰۰۱م
المفتى محمد عطا ءالله نعيمي
رئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)