True Fatawa

سیونگ سرٹیفیکیٹ پر ملنےوالےنفع کا حکم

سوال نمبر:JIA-201

الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ میرےپاس کسی نےکچھ رقم امانت کےطورپررکھی میں نےاُس رقم سےسیونگ سرٹیفیکیٹ خریدلئےاب میں نےوہ سرٹیفیکیٹ ختم کردیئےہیں لہٰذاپوچھنایہ ہےکہ میں اُس شخص کواُس کی اصل رقم لوٹاؤں یااس پرملنےوالاسودبھی دےدوں۔نیزکیاوہ سودکی رقم اُس کوبتائےبغیرکسی مستحق زکوٰۃ کودےدوں؟برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

سائل:انورحسین قادری رضوی عطّاری،کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صُورتِ مسئولہ میں مالک کواصل رقم لوٹائی جائےاوراُس پرملنےوالاسودکسی بھی غریب مستحق زکوٰۃ کوثواب کی نیت کےبغیردےدیں اورمالک کوبتانےکی ضرورت نہیں ہے۔چنانچہ امام احمدرضاخان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:جومال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا اس پرفرض ہے کہ جس جس سےلیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدّق کرے،خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیرصورتِ مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔یہی حکم سود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہےفرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدّق کردے،وذٰلکَ لأنّ الحُرمۃَ فِی الرّشوۃِ وأمثالِھا لعَدمِ الملکِ أصلاً فھُو عندَہ کالمَغصوبِ فیَجبُ الرّدّ علَی المالکِ أو ورثتِہ ما أمکن إمّا فِی الرّبٰو أواشباھِہ فلفسادِ الملکِ وخبثِہ و إذا قَد ملکَہ بالقَبضِ ملکاً خبیثاً لمْ یبقَ مملوک الماخوذِ مِنہ لاستحالۃِ اجتماعِ ملکَینِ عَلی شیئٍ واحدٍ فلَم یجبِ الرّدّ وإنّما وجبَ الانخلاعُ عَنہ إمّا بالرّدّ وإمّا بالتّصدّقِ کمَا ھُو سَبیل سائرِ الأملاکِ الخَبیثۃِ۔ یہ اس لئےکہ رشوت اور اس جیسے مال میں ملکیت بالکل نہ ہونے کی وجہ سےحُرمت ہے لہٰذا وہ مال رشوت لینےوالے کے پاس غصب شدہ مال کی طرح ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جس حد تک ممکن ہو وہ مال اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹادیاجائے پس ایساکرنا واجب ہے،سود یا اس جیسی اشیاء میں فسادِ مِلک اور خباثت کی بناء پر بوجہ قبضہ اس کا مالک بن گیا توجس سےمال لیاگیا اب اس کی ملکیت باقی نہ رہی(بلکہ ختم ہوگئی) اس لئے کہ ایک چیز پر بیک وقت دو مِلک جمع ہونے محال ہیں(کہ اصل شخص بھی مالک ہو اورسودخور بھی) لہٰذا مال ماخوذ کا واپس کرنا ضروری نہیں بلکہ اس سے علیحدگی واجب ہے خواہ بصورتِ ردّ (یعنی لوٹانے کے) ہو یا بصورتِ خیرات،جیسا کہ تمام املاکِ خبیثہ میں یہی طریقہ ہے۔1

اورسیونگ سرٹیفیکیٹ اسکیم کےبارےمیں مفتی محمدوقارالدین حنفی متوفی۱۴۱۳ھ لکھتےہیں:اس اسکیم میں روپیہ لگاناحرام ہے، کیونکہ یہ بھی سودکی قسم ہے۔2

اورشخصِ مذکوربطورامانت رکھی گئی رقم میں تصرف کرکےناجائزاَمرکامرتکب ہواہےلہٰذااُس پرتوبہ واجب ہے۔

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء:یوم الخمیس،۱۶/ذو القعدۃ الحرام،۱۴۲۲ھ۔۳۱/جنوری،۲۰۰۲م

المفتى محمد عطاء الله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 فتاویٰ رضویہ،کتاب الحظروالاباحۃ،کسب وحصولِ مال،۲۳/۵۵۱۔۵۵۲،مطبوعہ:رضافاؤنڈیشن،لاہور،طباعت:۱۴۲۳ھ۔۲۰۰۳م
  • 2 وقارالفتاویٰ،کتاب البیوع،سودکابیان،۳/۳۰۴،مطبوعہ:بزم وقارالدین،کراچی،طباعت:۱۴۲۸ھ۔۲۰۰۷م