True Fatawa

بدبودارگوشت کھانےکاحکم

سوال نمبر: JIA-345

الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ گوشت سڑکربدبودارہوجائےتوکیااُسےپکاکرکھایا جاسکتا ہےاوراگرایساگوشت پانی میں گرجائےتوکیاپانی ناپاک ہوجائےگا؟

سائل:شہاب الدین،پی آئی بی کالونی،کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صورتِ مسئولہ میں بدبودارگوشت کھاناحرام ہےمگرنجس نہیں لہٰذااس کےپانی میں گرنےسے پانی بدستورپاک رہےگا۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

  عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي يُدْرِكُ صَيْدَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ: «فَكُلْهُ مَا لَمْ يُنْتِنْ»۔12

یعنی،حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا:جس شخص کواپناشکارتین دن کے بعدملےتووہ اُس میں بدبوپیداہونےسےپہلےاُس کوکھاسکتاہے۔

اسی لئےفقہائےکرام نےلکھاکہ بدبودارگوشت کھاناحرام ہے۔

چنانچہ علامہ فریدالدین عالم بن علاءدہلوی حنفی متوفی ۷۸۶ھ،علامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوفی۱۰۸۸ھ اورعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اورعلمائےہندکی ایک جماعت نےلکھا ہے:

  يَحرمُ أكلُ لَحمٍ أنتنَ۔(واللفظ للدّر)346

یعنی،بدبودار گوشت کھانا حرام ہے۔

اس کےتحت علامہ سیّدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتےہیں

  قَولُه: (يَحرمُ أكلُ لَحمٍ أنتنَ) قالَ ح: أيْ: لأنّهُ يَضرّ لَا لأنَهُ نَجسٌ 7

یعنی،علامہ حلبی نےکہا:یعنی کیونکہ یہ بدبودارگوشت نقصان دیتاہےنہ اس لئےکہ یہ ناپاک ہے۔

  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: یوم الخمیس،۱/رمضانٰ،۱۴۲۳ھ۔۷/نومبر،۲۰۰۲م

المفتى محمد عطا ءالله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 صحیح مسلم،کتاب الصید والذبائح،باب إذا غاب عنہ الصید ثم وجدہ،برقم:۳،۱۰/۱۵۳۲،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت
  • 2 شرح مشکل الآثار للطحاوی،باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ ﷺ فی حکم اللحم إلخ،برقم:۱۰،۴۰۲۴/۱۹۵،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ۱۴۲۷ھ۔۲۰۰۶م
  • 3 الفتاوی التتارخانیۃ،کتاب الطھارۃ،الفصل السابع فی النجاسات وأحکامھا،النوع الثانی من ھذا الفصل فی مقدار النجاسۃ إلخ،۱/۴۴۵،مطبوعۃ:مکتبہ فاروقیہ،کوئٹہ
  • 4 الدر المختار،کتاب الطھارۃ،فصل الاستنجاء،ص۵۰، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۳ھ۔۲۰۰۲م
  • 6 الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ،الباب الحادی عشر فی الکراھۃ فی الأکل وما یتصل بہ،۵/۳۳۹،مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الثالثۃ۱۳۹۳ھ۔ ۱۹۷۳م
  • 7 رد المحتار،کتاب الطھارۃ،فصل الاستنجاء،مطلب فی الفرق بین الاستبراء إلخ،۱/۶۲۰، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م)