سوال نمبر:JIA-481
الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ دکاندارکی دکان پرجوسامان ہوتاہےوہ کم زیادہ ہوتارہتا ہےلہٰذاپوچھنایہ ہےکہ سال کےآخرمیں زکوٰۃ کس طرح اداکی جائےگی جبکہ درمیانِ سال دکان میں کمی بیشی ہوتی رہی تھی؟
سائل:علی محمدکچھی،محمدی کالونی،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صورتِ مسئولہ میں جبکہ سال کےشروع اورآخرمیں نصاب مکمل ہوتودکان میں موجودتمام مال کی سال گزرنےپرجوقیمت ہوگی اُس کاچالیسواں حصہ بطور زکوۃدیناواجب ہےورنہ نہیں۔چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغیانی حنفی متوفی۵۹۳ھ لکھتےہیں:
:(وإذا كانَ النّصابُ كاملاً فِي طَرفيِ الحَولِ فنُقصاَنه فيمَا بينَ ذلكَ لَا يُسقِط الزّكاةَ) لأنّه يشقّ اعتبارُ الكمالِ فيْ أثنائِه إذا لَا بدّ مِنه فِي ابتدائِه للانعقادِ وتحقّق الغِنى وفِي انتهائِه للوُجوبِ، ولَا كذلكَ فيمَا بينَ ذلكَ لأنّه حالةُ البقاءِ، بخلافِ مَا لَو هلكَ الكُلّ حيثُ يبطلُ حكمُ الحَولِ، ولَا تجبُ الزّكاةُ لانعدامِ النّصابِ فِي الجُملةِ، ولَا كذلكَ فِي المَسألةِ الأولَى لأنّ بعضَ النّصابِ باقٍ فيَبقى الانعقادُ۔1
یعنی،اگرسال کےاوّل وآخرمیں نصاب کامل ہوتودرمیانِ سال میں نصاب کاکم ہونازکوٰۃ کوساقط نہیں کرےگاکیونکہ اثنائےسال میں نصاب مکمل ہونےکااعتبارکرنادشوارہے۔بہرحال ابتدائےسال میں وُجوبِ زکوۃ کاسبب منعقدہونےاورمالداری ثابت ہونے کیلئےنصاب کامکمل ہوناضروری ہے،جبکہ سال کےآخرمیں وُجوبِ زکوٰۃ کیلئےاس کامکمل رہناضروری ہےاورابتداءوانتہاءکےمابین ایسانہیں،اس لئےکہ وہ بقاءکی حالت ہےبرخلاف اس صورت کےجب مکمل مال ہلاک ہوجائےکیونکہ اس وقت سال کاحکم باطل ہوجائےگااورزکوٰۃ واجب نہیں ہوگی کیونکہ نصاب مکمل ہی معدوم ہےاورپہلےمسئلےمیں ایسانہیں ہےاس لئےکہ بعض نصاب باقی ہےلہٰذاانعقادباقی رہا۔
اورامام یوسف بن عمرکادوری حنفی متوفی۸۳۲ھ اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اورعلمائےہند کی ایک جماعت نےلکھاہے:
وتُعتبَر القِیمۃُ عندَ حولانِ الحَولِ۔ 23
یعنی،مالِ تجارت میں سال گزرنےپرجوقیمت ہوگی اُس کااعتبارہے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء: ۱۶/رجب المرجب،۱۴۴۳ھ۔۱۳/سبتمبر،۲۰۰۳م
المفتى محمد عطا الله نعيمي
رئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)