True Fatawa

شرعی فقیرکوبغیربتائےزکوٰۃ دیناکیسا؟

سوال نمبر:JIA-202

الإستفتاء:کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس بارےمیں کہ ایک عورت جس کا شوہر زندہ ہےمگرکبھی ملازمت پر ہوتاہے توکبھی بے روزگار،کیا ایسی عورت صدقہ و زکوۃ لےسکتی ہے؟ نیز جب کبھی اس عورت کو صدقہ یا زکوۃ دیا جائےتو اس کو بتا نا ضروری ہے یا بغیر بتائےبھی دے سکتے ہیں؟برائے مہربانی وضاحت فرماکر ممنون فرمائیں۔

سائل:انورحسین قادری رضوی عطاری،کراچی


بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب: صُورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت مالکِ نصاب نہیں،تووہ زکوٰۃ اورصدقات لےسکتی ہے ورنہ نہیں،اوردیتےوقت اُسےزکوٰۃ یا صدقہ بتا کردینابھی ضروری نہیں ہےبلکہ صرف نیت کافی ہے۔

چنانچہ علامہ ابوالبرکات عبد اللہ بن احمدنسفی حنفی متوفی۷۱۰ھ لکھتے ہیں اور ان کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی متوفی۱۱۶۱ھ اورعلمائےہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:

  شَرطُ أدائِها نيّةٌ مقارِنةٌ للأداءِ أو لعَزلِ ما وجبَ۔ 12

یعنی،زکاۃ دیتےوقت یا اس کی ادائیگی کیلئےمال علیحدہ کرتے وقت نیّتِ زکوٰۃ شرط ہے۔

اس کےتحت علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی۹۷۰ھ لکھتےہیں اوران کےحوالےسےعلامہ نظام الدین حنفی اورعلمائے ہندکی ایک جماعت نےلکھاہے:

  و مَن أعْطی مِسکیناً دراھمَ و سمّاھَا ھبۃً أو قَرضاً و نَوی الزّکوۃَ فإنّھا تجزِیہ وھُو الأصحُّ۔[واللفظ للھندیۃ] 3 4

یعنی، اگرکسی نےمسکین کوہبہ(تحفہ)یاقرض کہہ کرکچھ رقم دی اورنیت زکوٰۃ کی ہو،توزکوٰۃ اداہوجائےگی اوریہی اصح قول ہے۔

اورعلامہ محمدشہاب الدین بن بزارکردری حنفی متوفی ۸۲۷ھ لکھتےہیں:

  والعبرۃُ لنیّۃِ الدّافعِ لَا لعلمِ المدفُوعِ إلیہ حَتّی لَو قَال لمُحترم وَھبتُ لکَ ھذَا الشیءَ أو أقرضتُک و یَنوی بِہ الزّکوۃَ وقعَ عنِ الزّکوۃِ۔5

یعنی،زکوٰۃ جسےدی جائےاُسےمعلوم ہونےکااعتبارنہیں بلکہ دینےوالےکی نیت معتبرہے،یہاں تک کہ اگردینےوالایہ کہےکہ میں نےیہ چیزتمہیں ہبہ کی یاقرض کےدی اورنیت زکوٰۃ کی ہو،توزکوٰۃ اداہوجائےگی۔

اورعلامہ سیدمحمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:

  لا اعتبارَ للتسميةِ؛ فلو سمّاها هبةً أو قرضاً تجزيه في الأصحِّ۔6

یعنی،نام لینے کا اعتبار نہیں ہے ،پس اگرکوئی مالِ زکوٰۃ کوتحفہ یا قرض کہہ کردے،جب بھی اصح قول کےمطابق زکوۃ ادا ہو جائے گی۔

اورصدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ لکھتےہیں:

  زکاۃ دینے میں اس کی ضرورت نہیں کہ فقیر کو زکاۃ کہہ کر دے،بلکہ صرف نیّتِ زکاۃ کافی ہے یہاں تک کہ اگر ہبہ یا قرض کہہ کر دے اور نیّت زکاۃ کی ہو ادا ہوگئی۔7
  واللہ تعالی أعلم بالصواب

تاریخ اجراء: ۱۶/ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۲۲ھ، ۳۱جنوری۲۰۰۲م

المفتى محمد عطا الله نعيمي

رئیس دارالإفتاء

جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)

 


  • 1 کنزالدقائق،کتاب الزکاۃ،ص۲۰۳،مطبوعۃ:دارالبشائر الإسلامیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۳۲ھ۔۲۰۱۱م
  • 2 الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ،الباب الأوّل فی تفسیرھا وصفتھا وشرائطھا،۱/۱۷۰، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الثالثۃ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳ھ
  • 3 الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکاۃ،الباب الأوّل فی تفسرھا وصفتھا وشرائطھا،۱/۱۷۱،مطبوعۃ:دارالمعرفۃ، بیروت،الطبعۃ الثالثۃ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳ھ
  • 4 البحر الرائق،کتاب الزکاۃ،تحت قولہ:وشرط أدائھا،۲/۳۷۰،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت ،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۱۸ھ۔ ۱۹۹۷م
  • 5 الفتاوی البزازیۃ علی ھامش الھندیۃ،کتاب الزکاۃ،الفصل الثانی فی المصرف،۴/۸۶۔۸۷،مطبوعۃ:دارالمعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الثالثۃ۱۳۹۳ھ۔۱۹۷۳ء
  • 6 رد المحتار علی الدرالمختار،کتاب الزکاۃ،مطلب:فی زکاۃ ثمن المبیع وفاء،تحت قولہ:نیۃ،۳/۲۲۲،مطبوعۃ:دار المعرفۃ، بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م
  • 7 بہار شریعت،زکاۃ کابیان ،۱/۵/۸۹۰،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ،کراچی،طباعت:۱۴۳۵ھ۔۲۰۱۴م