سوال نمبر:FU-22
الإستفتاء:کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ روزےکی حالت میں زیداورہندہ نےزناکیا(نعوذباللہ)، توان دونوں پرشریعت کاکیاحکم ہے؟برائےمہربانی بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:ابراہیم رضا،ممبئی،انڈیا
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:زنابہت بڑاگناہ ہے،حرام قطعی ہےاورپھرروزےکی حالت میں اشدحرام ہے۔فقیہ ملّت مفتی جلال الدین امجدی حنفی متوفی۱۴۲۲ھ لکھتےہیں:روزہ کی حالت میں زنا،معاذاللہ،استغفر اللہ،اگرحکومت اسلامیہ ہوتی توایسے لوگوں کوبہت سخت سزادی جاتی،موجودہ صورت میں یہ حکم ہےکہ اگرگناہ عام لوگوں پرظاہرہوگیاتوان دونوں کواعلانیہ توبہ واستغفار کرایاجائےورنہ جن لوگوں پرظاہرہواصرف انہیں لوگوں کےسامنےتوبہ واستغفارکرایاجائے۔اورقرآن خوانی ومیلادشریف کرنے،غرباومساکین کوکھاناکھلانےاورمسجدمیں لوٹاوچٹائی رکھنےکی تلقین کی جائےکہ یہ چیزیں قبول توبہ میں معاون ہوتی ہیں۔
قال اللہ تعالیٰ:
وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا۔ 1
اورجو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیےتھی(کنز الإیمان)
پھراگرماہ رمضان کےاداروزہ میں ایساہواتوروزہ توڑنےکےکفّارہ میں دونوں ساٹھ ساٹھ روزےمسلسل رکھیں۔اگرعُذریابغیرعُذرکےایک روزہ بھی درمیان میں چھوٹ گیاتوساٹھ روزہ پھرسےرکھناپڑےگا۔اوریہ بھی ضروری ہےکہ روزہ کاکفّارہ ان دنوں میں رکھےکہ شروع یادرمیان میں عیدالفطر،عیدالاضحیٰ اورذی الحجہ کی ۱۳،۱۲،۱۱ تاریخیں نہ ہوں۔اورکفّارہ کاساٹھ ساٹھ روزہ رکھنےکےساتھ ان دونوں پرماہ رمضان کےایک ایک روزہ کی قضابھی فرض ہے۔
اورجس روزہ میں یہ گناہ سرزدہوا،اگروہ روزہ رمضان شریف کی قضاکاتھایانفلی تھاتوان صورتوں میں صرف ایک ایک روزہ قضاکی نیت سےرکھناضروری ہے۔2
ہاں اگرکفّارےکےروزےرکھتےہوئےعورت کوحیض آجائے،تواس کی وجہ سےہونےوالےناغےشمارنہیں ہوں گے یعنی پہلےکےروزےاورحیض کےبعدوالےدونوں مل کرساٹھ ہوجانےسےکفّارہ اداہوجائےگا۔چنانچہ علامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتےہیں:
فَلو أفطرَ ولَو لعُذرٍ استأنفَ إلّا لعُذرِ الحَيضِ3
یعنی،اگرکفّارےکےروزےرکھتےہوئےایک دن کابھی روزہ چھوڑدیا،اگرچہ عُذرکی وجہ سےتووہ نئےسرےسےساٹھ روزے رکھےسوائےحیض کےعُذرکی وجہ سے۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
۱۲/رمضان المبارک۱۴۳۹ھ۔۲۸ مئی۲۰۱۸م