سوال نمبر: JIA-18
الإستفتاء:کیافرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگرروزےکی حالت میں الٹی آجائےتو روزےپرکیا اثرپڑےگا؟
سائل:محمدحسین قادری، خادم درگاہ طرطوسی قادری،ملیر سٹی،کراچی
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صُورتِ مسئولہ میں روزےدارکوازخودکتنی ہی قےآجائے،اس سےاُس کےروزےپرکوئی اثرنہیں پڑےگا،ہاں اگرکوئی روزہ یادہوتےہوئےقصداً(جان بوجھ کر)قےکرےاوروہ قےمنہ بھرہوتواُس کاروزہ ٹوٹ جائےگا، ورنہ نہیں۔چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی۵۹۳ھ لکھتےہیں:
:(فإنْ ذرعَہ القيءُ لمْ يُفطرْ) لقَولِہ صلّی اللہ عَلیہ وسلّم: "مَنْ قَاءَ فَلَا قَضَاءَ عَلَيہِ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَامِدًا فَعَلَيہِ الْقَضَاءُ" (فإن استقَاء عَمداً ملءَ فیہِ فعَلیْہ القضاءُ) لِما رَوينَا، والقیَاس مَترُوک بِہ ولا کفّٓارۃَ علیہِ۔1
یعنی،اگرکسی کوبلااختیارقےہوگئی تواُس کاروزہ نہیں ٹوٹا،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کافرمان ہے’’جسےقےآئےاُس پرقضاءنہیں اورجوجان بوجھ کرقےکرےتواُس پرقضاءہے‘‘2345 پس اگرکسی نےعمداًمنہ بھرقےکی،تواُس پرروزےکی قضاءلازم ہےاُس حدیث کی وجہ سےجس کوہم روایت کرچکےہیں،اورحدیث شریف کے سبب قیاس کوترک کیاگیاہےاوراُس پرکفّارہ واجب نہیں ہوگا۔
اورعلامہ حسن بن عمارشرنبلالی حنفی متوفی۱۰۶۹ھ لکھتےہیں:
ذرعَہ القيءُ وعادَ بغیرِ صُنعِہ وَلو ملأ فَاہُ فی الصّحیح۔ 6
یعنی،کسی کوازخودقےہوگئی اوروہ بغیراُس کےعمل کےلوٹ گئی تواس سےروزہ نہیں ٹوٹےگااورصحیح قول کےمطابق اگرچہ وہ منہ بھرہو۔
اورعلامہ محمدبن عبداللہ تمرتاشی حنفی اورعلامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوفی۱۰۸۸ھ لکھتےہیں:
(وإن ذرعَہ القَیءُ وخرجَ) ولم يعدْ (لَا يُفطِر مطلقاً) ملأ أو لاً۔ 7
یعنی، اگر بلااختیار قےہوگئی اور حلق میں نہ لوٹی تو مطلقاً روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ منہ بھر ہو یا منہ بھرنہ ہو۔
اورآگےلکھتےہیں:
(وإن استقَاء)أي طلبَ القَيء (عَامداً) أي متَذكّراً لصَومِہ (إن كانَ ملءُ الفَم فسدَ بالإجمَاعِ) مُطلقاً (وإن أقلّ لا)۔ 8
یعنی،اوراگرقصد اًیعنی ازخودقے کی یعنی یہ یاد رہتے ہوئےکہ وہ روزے سےہےتواگرقےمنہ بھرہے،توبالاجماع روزہ ٹوٹ گیااور اگرمنہ بھرسےکم ہے،تونہیں ٹوٹا۔
اورمندرجہ بالاحدیث شریف کےتحت ملّاعلی قاری حنفی متوفی۱۰۱۴ھ لکھتےہیں:
قَال ابنُ الملکِ: والأکثَر عَلی أنّہ لَا کفّارۃ عَلیہ، وفِی ’’شرحِ السنّۃ‘‘ عَمل بظَاھِر ھذَا الْحدِیث أھْل العِلم فَقالوْا مَن استقَاء فعلیہِ القضَاء ، وَمنْ ذرعَہ فَلا قضاءَ عَلیہِ لمْ یختلفُوا فِیہ۔9
عنی،علّامہ ابن ملک علیہ الرحمہ نےفرمایاکہ اکثراس پرہیں کہ جوعمداًقےکرےاُس پرکفّارہ نہیں،اور’’شَرْحُ السُّنَّۃِ‘‘10 میں ہےکہ اس حدیث کےظاہرپراہل علم کاعمل ہےپس اُنہوں نےکہاکہ جوجان بوجھ کرقےکرےاُس پرقضاءواجب ہےاورجسےازخودقے آئےتواُس پرقضاءنہیں،اوراس بارےمیں کسی نےاختلاف نہیں کیاہے۔
اورمفتی احمدیارخان نعیمی حنفی متوفی۱۳۹۱ھ لکھتےہیں:اسی پر چاروں اماموں کا عمل ہے کہ اگر کوئی شخص روزہ یاد ہوتے ہوئےعمدًا قے کرے تو روزہ جاتا رہے گا کیونکہ قے کا کچھ غیرمحسوس حصہ حلق میں واپس لوٹ جاتا ہے جس کا احساس نہیں ہوتا جیسےسونا وضو توڑ دیتا ہے کہ اس میں اکثر ریح نکل جاتی ہے مگر احساس نہیں ہوتا،ہاں امام ابو یوسف نے عمد کے ساتھ منہ بھر قے ہونے کی پابندی لگائی ہے مگر قے کردینے سے صرف قضا واجب ہوگی کفّارہ نہ ہوگا۔11
اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ لکھتےہیں:قصداً بھر مونھ قے کی اور روزہ دار ہونا یاد ہےتومطلقاً روزہ جاتا رہا اور اس سے کم کی تو نہیں اور بلا اختیار قے ہوگئی تو بھر مونھ ہے یا نہیں اور بہر تقدیر وہ لوٹ کر حلق میں چلی گئی یا اُس نے خود لوٹائی یا نہ لوٹی، نہ لوٹائی تو اگر بھر مونھ نہ ہو تو روزہ نہ گیا، اگرچہ لوٹ گئی یا اُس نے خود لوٹائی اور بھر مونھ ہے اور اُس نے لوٹائی، اگرچہ اس میں سے صر ف چنے برابرحلق سے اُتری تو روزہ جاتا رہا ورنہ نہیں۔12
اورمفتی محمدوقارالدین قادری حنفی متوفی۱۴۱۳ھ لکھتےہیں:خودبخود’’قے‘‘ہونےسےروزہ نہیں ٹوٹتا،چاہےمنہ بھرکرہویا نہ ہو۔قصداًقےکرنےسےاور’’قے‘‘منہ بھرکرہوتوبالاتفاق روزہ ٹوٹ جاتاہےاورمنہ بھرنہ ہوصحیح مذہب پرنہیں ٹوٹتاہے۔13
واللہ تعالی أعلم بالصواب
۶ رمضان المبارک ۱۴۲۱ھ۔۳ دسمبر۲۰۰۰م