سوال نمبر: JIA-726
الإستفتاء: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شادی شُدہ شخص بیمارہےاوروضوکرنےسے معذورہےاوراس کےپاس خادم یااُس کی اولادنہیں،جواُسےوضوکروائے،کیااس صُورت میں اُس کی بیوی پراپنےمجبورشوہرکونماز کےلئےوضوکروانالازم ہےیانہیں؟
بإسمہ سبحانہ تعالٰی و تقدس الجواب:صُورتِ مسئولہ میں ایسےشخص کی بیوی اپنےشوہرکووضوکروائےکہ اس میں شوہرکےساتھ معاونت ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى1
اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔(کنز الإیمان)
اورایک قول وُجوب کابھی مذکورہے۔چنانچہ علامہ علی بن عبداللہ طوری حنفی متوفی۱۰۰۴ھ لکھتےہیں:
السیّد لَو عجزَ عَن الوُضوءِ:عَلی أمتِہ أن توضّیہ لَا عَلی زَوجتِہ، وھِی کالأجنَبی، وقِیلَ یجبُ عَلیْھا إعانَتہ دِیانۃً لقولِہ تَعالیٰ:وَ تَعَاوَنُوْا عَلی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى۔2
یعنی،اگرآقاوضوکرنےسےعاجزہو،تواُس کی باندی پرلازم ہےکہ وہ اُسےوضوکروائے،اُس کی زوجہ پرواجب نہیں اوروہ اجنبی کی مثل ہوگی،اورایک قول یہ ہےکہ زوجہ پردیانۃًلازم ہےکہ وہ اُس کی مددکرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:اورنیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔
اورفقہائےکرام نےیہ بھی لکھاہےکہ مریض اگروضوسےعاجزہواوراُس کی بیوی نہ ہو،بیٹایابھائی ہو،تووہ وضوکروائے۔
چنانچہ علامہ حسن بن منصوراُوزجندی حنفی متوفی۵۹۲ھ لکھتےہیں:
وَکذَا قَالُوا فِی المَریضِ إذَا لمْ یکُن لَہ امرَأۃ وَعجزَ عَن الوُضوءِ ولَہ ابْن أو أخ، فإنّہ یوضّیہ، إلّا أنّہ لَایمسّ فرجَہ۔3
یعنی،اسی طرح فقہائےکرام نےایسےمریض کیلئےفرمایاجس کی بیوی نہ ہواوروہ وضوسےعاجزہو،اوراُس کابیٹایابھائی ہوتووہ یعنی بیٹایا بھائی اُسےوضوکروائیں،مگروہ اُس کی شرمگاہ کونہ چھوئے۔
اس مسئلےسےظاہرہواکہ عاجزشخص کی اگربیوی نہ ہو،اوراُس کابھائی یابیٹاہو،تووہ اُسےوضوکروائیں،لیکن اگربیوی ہوگی تو وہ اپنےعاجزشخص کووضوکروائےگی۔
واللہ تعالی أعلم بالصواب
تاریخ اجراء:الاثنین، ۱۵ ؍ شوال المکرم ۱۴۲۲ھ، ۳۱ ؍ دسمبر ۲۰۰۱ء
المفتى محمد عطا الله نعيمي
رئیس دارالإفتاء
جمعية إشاعة أھل السنة(باكستان)